میاں عاطف کا جرم کیا ہے؟
عاطف میاں جو اعلانیہ قادیانی ہے ان کو خان صاحب نے پاکستان کے اقتصادی کونسل کے ممبر کو طور پر لیا ہے جس سے پاکستانی عوام میں ایک بے چینی کی لہر دوڑ چکی ہے.خان صاحب سے پی ٹی آئی کے نوعمر ورکرز بے انتہاء محبت کرتے ہیں اور اس محبت میں غلو کی وجہ سے بڑے اہم وسنجیدہ مسائل بھی سیاسی بحثا بحثی کے شکار ہورہے ہیں جو ایک پریشان کن مسئلہ ہے۔ پی ٹی آئی کے ورکرز نے اس ایشو کو یہ رنگ دیا ہے کہ عاطف میاں قادیانی ہے تو اس رو سے یہ کافر ہوئے اور کافر کو کوئی سرکاری عہدہ دینا کونسا جرم ہے اقلیتیں بھی تو پاکستانی ہیں. یہ ایک غلط توجیہ ہے پہلی بات یہ ہے کہ قادیانی عام کافر نہیں ہے بلکہ اسلامی نقطہ نظر سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری پیغمبر تسلیم نہ کرکے اسلام سے مرتد قرار پاچکے ہیں
اور اسلام میں مرتد کے احکام دیگر کفار سے مختلف ہیں دیگر کفار کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہب پر عمل پیرا رہ کر زندگی گزارے اسلام ان پر کوئی پابندی نہیں لگاتا اور ملکی مناصب پر آسکتے ہیں (جیسے پاکستان میں بھگوان داس صاحب قائم مقام چیف جسٹس رہ چکے ہیں)
لیکن مرتد جس نے اسلام کو قبول کیا اور پھر اسلام کے لازمی عقیدہ سے انکار کرکے ارتداد اختیار کیا تو اس کے متعلق اسلامی تصور یہ ہے کہ تین دن اس پر اسلام کی حقانیت واضح کی جائے گی اگر اسلام کی طرف پلٹ آیا تو بہتر ورنہ اس کو اسلام کے دستور کا باغی قرار دے کر حاکم اس کو حدا قتل کردے گا۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سزا مسلمانوں نے خود سے متعین کی ہے یا رسول اللہ ﷺ کا فرمان عالی شان اس متعلق موجود ہے تو جواب یہی ہے کہ یہ سزا پیغمبر اسلام نے مقرر فرمائی ہے چنانچہ بخاری شریف میں حدیث آئی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مَنْ بّدَّلَ دِیْنَہ فاقْتلُوہ
یعنی جو شخص اپنا دین اسلام بدل کر کفر اختیار کرے اور مرتد ہوجائے اسے قتل کردو۔
اورایک دوسری حدیث المعجم الکبیر للطبرانی میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من بدل دینہ فاقتلوہ إن اللہ لا یقبل توبة عبد کفر بعد إسلامہ یہ دونوں زیلعی: ج۲ ص۱۵۷ میں مذکور ہیں۔
حضور ﷺ کے اس فرمان کو بنیاد بنا کر پوری دنیا کے مشہور چاروں مذاہب کے فقہاء کرام نے یہ موقف اختیار کیا ہیں ملاحظہ فرمائیں:
فقہ حنفی:
چنانچہ فقہ حنفی کی مشہور کتاب ہدایہ میں ہے:
”واذا ارتد المسلم عن الاسلام والعیاذ باللہ․ عرض علیہ الاسلام فان کانت لہ شبہة کشفت عنہ ویحبس ثلاثة ایام فان اسلم والاقتل“․ (ہدایہ اولین ص:۵۸۰، ج:۱)
ترجمہ: ”اور جب کوئی مسلمان نعوذ باللہ! اسلام سے پھرجائے تو اس پر اسلام پیش کیاجائے، اس کو کوئی شبہ ہو تو دور کیا جائے، اس کو تین دن تک قید رکھاجائے، اگر اسلام کی طرف لوٹ آئے تو ٹھیک، ورنہ اسے قتل کردیا جائے۔“
فقہ شافعی:
فقہ شافعی کی شہرئہ آفاق کتاب المجموع شرح المہذب میں ہے:
”اذا ارتد الرجل وجب قتلہ، سواء کان حرا او عبدا ․․․ وقد انعقد الاجماع علی قتل المرتد“ (المجموع شرح المہذب، ص:۲۲۸، ج:۱۹)
ترجمہ: ”اور جب آدمی مرتد ہوجائے تو اس کا قتل واجب ہے، خواہ وہ آزاد ہو یا غلام، اور قتل مرتد پر اجماع منعقد ہوچکا ہے۔“
فقہ حنبلی:
فقہ حنبلی کی معرکة الآراء کتاب المغنی اور الشرح الکبیر میں ہے:
”واجمع اہل العلم علی وجوب قتل المرتد، وروی ذلک عن ابی بکر و عمر وعثمان وعلی و معاذ و ابی موسیٰ وابن عباس وخالد (رضی اللہ عنہم) وغیرہم، ولم ینکر ذلک فکان اجماعا“۔(المغنی مع الشرح الکبیر،ص:۷۴، ج:۱۰)
ترجمہ: ”قتل مرتد کے واجب ہونے پر اہل علم کا اجماع ہے، یہ حکم حضرت ابوبکر، عمر، عثمان، علی، معاذ، ابوموسیٰ،ابن عباس، خالد اور دیگرحضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے اور اس کا کسی صحابی نے انکار نہیں کیا، اس لئے یہ اجماع ہے۔“
فقہ مالکی:
فقہ مالکی کے عظیم محقق ابن رشد مالکی کی مشہور زمانہ کتاب ”بدایة المجتہد“ میں ہے:
”والمرتد اذا ظفر بہ قبل ان یحارب فاتفقوا علی انہ یقتل الرجل لقولہ علیہ الصلوٰة والسلام: ”من بدل دینہ فاقتلوہ“ (بدایة المجتہد ص:۳۴۳، ج:۲)
ترجمہ: ”اور مرتد جب لڑائی سے قبل پکڑا جائے تو تمام علمائے امت اس پر متفق ہیں کہ مرتد کو قتل کیا جائے گا، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ”جو شخص اپنا مذہب بدل کر مرتد ہوجائے، اس کو قتل کردو۔“
چاروں مذاہب کےبالمقابل ہندوستان کے ایک عالم دین مولانا وحید الدین خان کا کہنا یہ ہے کہ یہ سزا اس وقت دور کے ساتھ خاص ہے فقہ ابدی نہیں ہوتا ہے اس وقت اسلام سے ارتداد گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بحیثیت حاکم مخالفت شمار ہوتی تھی اس لیے ان کو قتل کی سزا سنائی گئی تھی
پہلی بات تو یہ ہے کہ حضور ﷺ کے فرامین اس سزا متعلق اطلاقی ہیں پوری امت (تقریبا) اس سزا کو مانتی آئی ہے لہذا اس شاذ توجیہ کو امت نے کبھی قبول نہیں کیا ہے
اگر میاں عاطف کے کیس میں بالفرض تسلیم بھی کیا جائے تو اس بارے میں یہ بھی ملحوظ رہے کہ قادیانی آئین پاکستان کے باغی ہیں اور آئین پاکستان سے باغی گروہ وشخص کو نوازنے کا حق ریاست کے کسی فرد کے پاس نہیں ہے۔
لہذا پی ٹی آئی کے دوست سیاسی محبت میں سنجیدہ مذہبی مسائل کو تختہ مشق نہ بنائیں اور ایسے ایشوز میں بے جا حمایت سے احتراز فرمائیں۔