کبوتروں والا سائیں

پنجاب کے ایک سرد دیہات کے تکیے میں مائی جیواں صبح سویرے ایک غلاف چڑھی قبر کے پاس زمین کے اندر کُھدے ہوئے گڑھے میں بڑے بڑے اپلوں سے آگ لگا رہی ہے۔ صبح کے سرد اور مٹیالے دھندلکے میں جب وہ اپنی پانی بھری آنکھوں کو سکیڑ کر اور اپنی کمر کو دہرا کرکے، منہ قریب قریب زمین کے ساتھ لگا کر اوپر تلے رکھے ہوئے اُپلوں کے اندر پھونک گھسیڑنے کی کوشش کرتی ہے تو زمین پر سے تھوڑی سی راکھ اڑتی ہے اور اس کے آدھے سفید اور آدھے کالے بالوں پر جو کہ گھِسے ہُوئے کمبل کا نمونہ پیش کرتے ہیں بیٹھ جاتی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بالوں میں تھوڑی سی سفیدی اور آگئی ہے۔ اُپلوں کے اندر آگ سُلگتی ہے اور یوں جو تھوڑی سی لال لال روشنی پیدا ہوتی ہے مائی جیواں کے سیاہ چہرے پر جھریوں کو اور نمایاں کردیتی ہے۔ مائی جیواں یہ آگ کئی مرتبہ سُلگا چکی ہے۔ یہ تکیہ یا چھوٹی سی خانقاہ جس کے اندر بنی ہوئی قبر کی بابت اس کے پردادا نے لوگوں کو یہ یقین دلایا تھا کہ وہ ایک بہت بڑے پیر کی آرام گاہ ہے، ایک زمانے سے اُن کے قبضہ میں تھی۔ گاما سائیں کے مرنے کے بعد اب اس کی ہوشیار بیوی ایک تکیے کی مجاور تھی۔ گاما سائیں سارے گاؤں میں ہر دلعزیز تھا۔ ذات کا وہ کُمہار تھا مگر چونکہ اسے تکیے کی دیکھ بھال کرنا ہوتی تھی۔ اس لیے اُس نے برتن بنانے چھوڑ دیئے تھے۔ لیکن اس کے ہاتھ کی بنائی ہوئی کونڈیاں اب بھی مشہور ہیں۔ بھنگ گھوٹنے کے لیے وہ سال بھر میں چھ کونڈیاں بنایا کرتا تھا جن کے متعلق بڑے فخر سے وہ یہ کہا کرتا تھا۔

’’چوہدری لوہا ہے لوہا۔ فولاد کی کونڈی ٹوٹ جائے پر گاما سائیں کی یہ کونڈی دادا لے تو اس کا پوتا بھی اسی میں بھنگ گھوٹ کرپِیے۔ ‘‘

مرنے سے پہلے گاما سائیں چھ کونڈیاں بنا کررکھ گیا تھا جو اب مائی جیواں بڑی احتیاط سے کام میں لاتی تھی۔ گاؤں کے اکثر بڈھے اور جوان تکیئے میں جمع ہوتے تھے اور سردائی پیا کرتے تھے۔ گھوٹنے کے لیے گاما سائیں نہیں تھا پر اُس کے بہت سے چیلے چانٹے جو اَب سر اور بھویں منڈا کر سائیں بن گئے تھے، اس کے بجائے بھنگ گھوٹا کرتے تھے اور مائی جیواں کی سُلگائی ہُوئی آگ سُلفہ پینے والوں کے کام آتی تھی۔ صبح اور شام کو تو خیر کافی رونق رہتی تھی، مگر دوپہر کو آٹھ دس آدمی مائی جیواں کے پاس بیری کی چھاؤں میں بیٹھے ہی رہتے تھے۔ اِدھر اُدھر کونے میں لمبی لمبی بیل کے ساتھ ساتھ کئی کابک تھے جن میں گاما سائیں کے ایک بہت پرانے دوست ابو پہلوان نے سفید کبوتر پال رکھے تھے۔ تکیئے کی دھوئیں بھری فضا میں ان سفید اور چتکبرے کبوتروں کی پھڑپھڑاہٹ بہت بھلی معلوم ہوتی تھی۔ جس طرح تکیئے میں آنے والے لوگ شکل وصورت سے معصومانہ حد تک بے عقل نظر آتے تھے اسی طرح یہ کبوتر جن میں سے اکثر کے پیروں میں مائی جیواں کے بڑے لڑکے نے جھانجھ پہنا رکھے تھے بے عقل اور معصوم دکھائی دیتے تھے۔ مائی جیواں کے بڑے لڑکے کا اصلی نام عبدالغفار تھا۔ اسکی پیدائش کے وقت یہ نام شہر کے تھانیدار کا تھا جو کبھی کبھی گھوڑی پر چڑھ کر موقعہ دیکھنے کے لیے گاؤں میں آیا کرتا تھا اور گاما سائیں کے ہاتھ کا بنا ہوا ایک پیالہ سردائی کا ضرور پیا کرتا تھا۔ لیکن اب وہ بات نہ رہی تھی۔ جب وہ گیارہ برس کا تھا تو مائی جیواں اس کے نام میں تھانیداری کی بُو سُونگھ سکتی تھی مگر جب اس نے بارہویں سال میں قدم رکھا تو اس کی حالت ہی بگڑ گئی۔ خاصا تگڑا جوان تھا پر نہ جانے کیا ہوا کہ بس ایک دو برس میں ہی سچ مچ کا سائیں بن گیا۔ یعنی ناک سے رینٹھ بہنے لگا اور چپ چپ رہنے لگا۔ سر پہلے ہی چھوٹا تھا پر اب کچھ اور بھی چھوٹا ہو گیا اور منہ سے ہر وقت لعاب سا نکلنے لگا۔ پہلے پہل ماں کو اپنے بچے کی اس تبدیلی پر بہت صدمہ ہوا مگر جب اس نے دیکھا کہ اس کی ناک سے رینٹھ اور منہ سے لعاب بہتے ہی گاؤں کے لوگوں نے اس سے غیب کی باتیں پوچھنا شروع کردی ہیں اور اس کی ہر جگہ خوب آؤ بھگت کی جاتی ہے تو اسے ڈھارس ہُوئی کہ چلو یوں بھی تو کما ہی لے گا۔ کمانا ومانا کیا تھا۔ عبدالغفار جس کو اب کبوتروں والا سائیں کہتے تھے، گاؤں میں پھرپھرا کر آٹا چاول اکٹھا کرلیا کرتا تھا، وہ کبھی اس لیے کہ اس کی ماں نے اس کے گلے میں ایک جھولی لٹکا دی تھی، جس میں لوگ کچھ نہ کچھ ڈال دیا کرتے تھے۔ کبوتروں والا سائیں اسے اس لیے کہا جاتا تھا کہ اسے کبوتروں سے بہت پیار تھا۔ تکیئے میں جتنے کبوتر تھے ان کی دیکھ بھال ابو پہلوان سے زیادہ یہی کیا کرتا تھا۔ اس وقت وہ سامنے کوٹھڑی میں ایک ٹُوٹی ہُوئی کھاٹ پر اپنے باپ کا میلا کچیلا لحاف اوڑھے سورہا تھا۔ باہر اس کی ماں آگ سُلگا رہی تھی۔ چونکہ سردیاں اپنے جوبن پر تھیں اس لیے گاؤں ابھی تک رات اور صبح کے دھوئیں میں لپٹا ہوا تھا۔ یوں تو گاؤں میں سب لوگ بیدار تھے اور اپنے کام دھندوں میں مصروف تھے مگر تکیہ جو کہ گاؤں سے فاصلہ پر تھا ابھی تک آباد نہ ہوا تھا، البتہ دُور کونے میں مائی جیواں کی بکری زور زور سے ممیا رہی تھی۔ مائی جیواں آگ سُلگا کر بکری کے لیے چارہ تیار کرنے ہی لگی تھی کہ اسے اپنے پیچھے آہٹ سُنائی دی۔ مڑ کر دیکھا تو اسے ایک اجنبی سر پر ٹھاٹا اور موٹا سا کمبل اوڑھے نظر آیا۔ پگڑی کے ایک پلو سے اس آدمی نے اپنا چہرہ آنکھوں تک چھپا رکھا تھا۔ جب اس نے موٹی آواز میں

’’مائی جیواں السلام علیکم‘‘

کہا تو پگڑی کا کھردرا کپڑا اس کے منہ پر تین چار مرتبہ سکڑا اور پھیلا۔ مائی جیواں نے چارہ بکری کے آگے رکھ دیا اور اجنبی کو پہچاننے کی کوشش کیے بغیر کہا

’’وعلیکم السلام۔ آؤ بھائی بیٹھو۔ آگ تاپو۔ ‘‘

مائی جیواں کمر پر ہاتھ رکھ کر اس گڑھے کی طرف بڑھی جہاں ہر روز آگ سلگتی رہتی تھی۔ اجنبی اور وہ دونوں پاس پاس بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر ہاتھ تاپ کر اس آدمی نے مائی جیواں سے کہا۔

’’ماں۔ اللہ بخشے گاماں سائیں مجھے باپ کی طرح چاہتا تھا۔ اس کے مرنے کی خبر ملی تو مجھے بہت صدمہ ہوا۔ مجھے آسیب ہو گیا تھا، قبرستان کا جن ایسا چمٹا تھا کہ اللہ کی پناہ، گاما سائیں کے ایک ہی تعویذ سے یہ کالی بلا دُور ہو گئی۔ ‘‘

مائی جیواں خاموشی سے اجنبی کی باتیں سنتی رہی جو کہ اس کے شوہر کا بہت ہی معتقد نظر آتا تھا۔ اس نے اِدھر اُدھر کی اوربہت سی باتیں کرنے کے بعد بڑھیا سے کہا۔

’’میں بارہ کوس سے چل کر آیا ہوں، ایک خاص بات کہنے کے لیے۔ اجنبی نے رازداری کے انداز میں اپنے چاروں طرف دیکھا کہ اُس کی بات کوئی اور تو نہیں سُن رہا اور بھنچے ہوئے لہجہ میں کہنے لگا۔

’’میں سُندر ڈاکو کے گروہ کا آدمی ہُوں۔ پرسوں رات ہم لوگ اس گاؤں پر ڈاکہ مارنے والے ہیں۔ خون خرابہ ضرور ہو گا، اس لیے میں تم سے یہ کہنے آیا ہوں کہ اپنے لڑکوں کو دُور ہی رکھنا۔ میں نے سُنا ہے کہ گاما سائیں مرحوم نے اپنے پیچھے دو لڑکے چھوڑے ہیں۔ جو ان آدمیوں کا لہو ہے بابا، ایسا نہ ہو کہ جوش مار اٹھے اور لینے کے دینے پڑ جائیں۔ تم ان کو پرسوں گاؤں سے کہیں باہر بھیج دو تو ٹھیک رہے گا۔ بس مجھے یہی کہنا تھا۔ میں نے اپنا حق ادا کردیا ہے۔ السلام علیکم۔ ‘‘

اجنبی اپنے ہاتھوں کو آگ کے الاؤ پر زور زور سے مل کر اُٹھا اور جس راستے سے آیا تھا اسی راستے سے باہر چلا گیا۔ سُندر جاٹ بہت بڑا ڈاکو تھا۔ اس کی دہشت اتنی تھی کہ مائیں اپنے بچوں کو اُسی کا نام لے کر ڈرایا کرتی تھیں۔ بے شمار گیت اسکی بہادری اور بیباکی کے گاؤں کی جوان لڑکیوں کو یاد تھے۔ اس کا نام سُن کر بہت سی کنواریوں کے دل دھڑکنے لگتے تھے۔ سُندر جاٹ کو بہت کم لوگوں نے دیکھا تھا مگر جب چوپال میں لوگ جمع ہوتے تھے تو ہر شخص اس سے اپنی اچانک ملاقات کے من گھڑت قصے سُنانے میں ایک خاص لذت محسوس کرتا تھا۔ اس کے قدوقامت اور ڈیل ڈول کے بارے میں مختلف بیان تھے۔ بعض کہتے تھے کہ وہ بہت قد آور جوان ہے، بڑی بڑی مونچھوں والا۔ ان مونچھوں کے بالوں کے متعلق یہ مشہور تھا کہ وہ دو بڑے بڑے لیموں ان کی مدد سے اُٹھا سکتا ہے۔ بعض لوگوں کا یہ بیان تھا کہ اس کا قد معمولی ہے مگر بدن اس قدر گٹھا ہوا ہے کہ گینڈے کا بھی نہ ہو گا۔ بہرحال سب متفقہ طور پر اسکی طاقت اور بیباکی کے مُعترف تھے۔ جب مائی جیواں نے یہ سنا کہ سُندر جاٹ انکے گاؤں پر ڈاکہ ڈالنے کے لیے آرہا ہے تو اسکے آئے اوسان خطا ہو گئے اور وہ اس اجنبی کے سلام کا جواب تک نہ دے سکی اور نہ اس کا شکریہ ادا کرسکی۔ مائی جیواں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ سُندر جاٹ کا ڈاکہ کیا معنی رکھتا ہے۔ پچھلی دفعہ جب اس نے ساتھ والے گاؤں پر حملہ کیا تھا تو سکھی مہاجن کی ساری جمع پونجی غائب ہو گئی تھی اور گاؤں کی سب سے سُندر اور چنچل چھوکری بھی ایسی گُم ہوئی تھی کہ اب تک اس کا پتہ نہیں ملتا تھا۔ یہ بلا اب ان کے گاؤں پر نازل ہونے والی تھی اور اس کا علم سوائے مائی جیواں کے گاؤں میں کسی اور کو نہ تھا۔ مائی جیواں نے سوچا کہ وہ اس آنے والے بھونچال کی خبر کس کس کو دے۔ چوہدری کے گھر خبر کردے۔ لیکن نہیں وہ تو بڑے کمینے لوگ تھے۔ پچھلے دنوں اس نے تھوڑا سا ساگ ان سے مانگا تھا تو انھوں نے انکار کردیا تھا۔ گھسیٹا رام حلوائی کو متنبہ کردے۔ نہیں، وہ بھی ٹھیک آدمی نہیں تھا۔ وہ دیر تک ان ہی خیالات میں غرق رہی۔ گاؤں کے سارے آدمی وہ ایک ایک کرکے اپنے دماغ میں لائی اور ان میں سے کسی ایک کو بھی اس نے مہربانی کے قابل نہ سمجھا۔ اس کے علاوہ اس نے سوچا اگر اس نے کسی کو ہمدردی کے طور پر اس راز سے آگاہ کردیا تو وہ کسی اور پر مہربانی کرے گا اور یوں سارے گاؤں والوں کو پتہ چل جائے گا جس کا نتیجہ اچھا نہیں ہو گا۔ آخر میں وہ یہ فیصلہ کرکے اٹھی کہ اپنی ساری جمع پونجی نکال کر وہ سبز رنگ کی غلاف چڑھی قبر کے سرہانے گاڑ دے گی اور رحمان کو پاس والے گاؤں میں بھیج دے گی۔ جب وہ سامنے والی کوٹھڑی کی طرف بڑھی تو دہلیز میں اسے عبدالغفار یعنی کبوتروں والاسائیں کھڑا نظر آیا۔ ماں کو دیکھ کر وہ ہنسا۔ اس کی یہ ہنسی آج خلافِ معمول معنی خیز تھی۔ مائی جیواں کو اس کی آنکھوں میں سنجیدگی اور متانت کی جھلک بھی نظر آئی جو کہ ہوشمندی کی نشانی ہے۔ جب وہ کوٹھڑی کے اندر جانے لگی تو عبدالغفار نے پوچھا۔

’’ماں، یہ صبح سویرے کون آدمی آیا تھا؟‘‘

عبدالغفار اس قسم کے سوال عام طور پر پوچھا کرتا تھا، اس لیے اس کی ماں جواب دیئے بغیر اندر چلی گئی اور اپنے چھوٹے لڑکے کو جگانے لگی۔

’’اے رحمان، اے رحمان اُٹھ اُٹھ۔ ‘‘

بازو جھنجھوڑ کر مائی جیواں نے اپنے چھوٹے لڑکے رحمان کو جگایا اور وہ جب آنکھیں مل کر اٹھ بیٹھا اور اچھی طرح ہوش آگیا تو اس کی ماں نے اس کو ساری بات سنا دی۔ رحمان کے تو اوسان خطا ہو گئے۔ وہ بہت ڈرپوک تھا گو اس کی عمر اس وقت بائیس برس کی تھی اور کافی طاقتور جوان تھا مگر اُس میں ہمت اور شجاعت نام تک کو نہ تھی۔ سُندر جاٹ!۔ اتنا بڑا ڈاکو، جس کے متعلق مشہور تھا کہ وہ تھوک پھینکتا تھا تو پورے بیس گز کے فاصلے پر جا کر گرتا تھا، پرسوں ڈاکہ ڈالنے اور لوٹ مار کرنے کے لیے آرہا تھا۔ وہ فوراً اپنی ماں کے مشورے پر راضی ہو گیا بلکہ یوں کہیے کہ وہ اسی وقت گاؤں چھوڑنے کی تیاریاں کرنے لگا۔ رحمان کو نیتی چمارن یعنی عنایت سے محبت تھی جو کہ گاؤں کی ایک بیباک شوخ اور چنچل لڑکی تھی۔ گاؤں کے سب جوان لڑکے شباب کی یہ پوٹلی حاصل کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے مگر وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتی تھی۔ بڑے بڑے ہوشیار لڑکوں کو وہ باتوں باتوں میں اڑا دیتی تھی۔ چوہدری دین محمد کے لڑکے فضل دین کو کلائی پکڑنے میں کمال حاصل تھا۔ اس فن کے بڑے بڑے ماہر دُور دُور سے اس کو نیچا دکھانے کے لیے آتے تھے مگر اس کی کلائی کسی سے بھی نہ مڑی تھی۔ وہ گاؤں میں اکڑ اکڑ کر چلتا تھا مگر اس کی یہ ساری اکڑفوں نیتی نے ایک ہی دن میں غائب کردی جب اس نے دھان کے کھیت میں اس سے کہا۔

’’فجے، گنڈا سنگھ کی کلائی مروڑ کر تُو اپنے من میں یہ مت سمجھ کہ بس اب تیرے مقابلہ میں کوئی آدمی نہیں رہا۔ آمیرے سامنے بیٹھ، میری کلائی پکڑ، ان دو انگلیوں کی ایک ہی ٹھمکی سے تیرے دونوں ہاتھ نہ چُھڑا دُوں تو نیتی نام نہیں۔ ‘‘

فضل دین اس کو محبت کی نگاہوں سے دیکھتا تھا اور اسے یقین تھا کہ اسکی طاقت اور شہزوری کے رُعب اور دبدبے میں آکر وہ خودبخود ایک روز رام ہو جائیگی۔ لیکن جب اس نے کئی آدمیوں کے سامنے اس کو مقابلے کی دعوت دی تو وہ پسینہ پسینہ ہو گیا۔ اگر وہ انکارکرتا ہے تو نیتی اور بھی سر پر چڑھ جاتی ہے اور اگر وہ اسکی دعوت قبول کرتا ہے تو لوگ یہی کہیں گے۔ عورت ذات سے مقابلہ کرتے شرم تو نہیں آئی مردود کو۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کرے۔ چنانچہ اس نے نیتی کی دعوت قبول کرلی تھی۔ اور جیسا کہ لوگوں کا بیان ہے اس نے جب نیتی کی گدرائی ہوئی کلائی اپنے ہاتھوں میں لی تو وہ سارے کا سارا کانپ رہا تھا۔ نیتی کی موٹی موٹی آنکھیں اس کی آنکھوں میں دھنس گئیں، ایک نعرہ بلند ہوا اور نیتی کی کلائی فضل کی گرفت سے آزاد ہو گئی۔ اس دن سے لیکر اب تک فضل نے پھر کبھی کسی کی کلائی نہیں پکڑی۔ ہاں، تو اس نیتی سے رحمان کو محبت تھی، جیسا کہ وہ آپ ڈرپوک تھا اسی طرح اس کا پریم بھی ڈرپوک تھا۔ دُور سے دیکھ کروہ اپنے دل کی ہوّس پوری کرتا تھا اور جب کبھی اس کے پاس ہوتی تو اس کو اتنی جرأت نہیں ہوتی تھی کہ حرفِ مدعا زبان پر لائے۔ مگر نیتی سب کچھ جانتی تھی۔ وہ کیا کچھ نہیں جانتی تھی۔ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ یہ چھوکرا جو درختوں کے تنوں کے ساتھ پیٹھ ٹیکے کھڑا رہتا ہے اس کے عشق میں گرفتار ہے، اس کے عشق میں کون گرفتار نہیں تھا؟ سب اس سے محبت کرتے تھے۔ اس قسم کی محبت جو کہ بیریوں کے بیرپکنے پر گاؤں کے جوان لڑکے اپنی رگوں کے تناؤ کے اندر محسوس کیا کرتے ہیں مگر وہ ابھی تک کسی کی محبت میں گرفتار نہیں ہوئی تھی۔ محبت کرنے کی خواہش البتہ اسکے دل میں اس قدر موجود تھی کہ بالکل اس شرابی کے مانند معلوم ہوتی تھی جس کے متعلق ڈر رہا کرتا ہے کہ اب گِرا اور اب گِرا۔ وہ بے خبری کے عالم میں ایک بہت اونچی چٹان کی چوٹی پر پہنچ چکی تھی اور اب تمام گاؤں والے اس کی افتاد کے منتظر تھے جو کہ یقینی تھی۔ رحمان کو بھی اس اُفتاد کا یقین تھا مگر اس کا ڈرپوک دل ہمیشہ اسے ڈھارس دیا کرتا تھا کہ نہیں، نیتی آخر تیری ہی باندی بنے گی اور وہ یوں خوش ہوجایا کرتا تھا۔ جب رحمان دس کوس طے کرکے دوسرے گاؤں میں پہنچنے کے لیے تیار ہو کر تکیئے سے باہر نکلا تو اُسے راستے میں نیتی کا خیال آیا مگر اس وقت اُس نے یہ نہ سوچا کہ سُندر جاٹ دھاوا بولنے والا ہے۔ وہ دراصل نیتی کے تصور میں اس قدر مگن تھا اور اکیلے میں اس کے ساتھ من ہی من میں اتنے زوروں سے پیار محبت کررہا تھا کہ اسے کسی اور بات کا خیال ہی نہ آیا۔ البتہ جب وہ گاؤں سے پانچ کوس آگے نکل گیا تو ایکا ایکی اس نے سوچا کہ نیتی کو تو بتا دینا چاہیے تھا کہ سندر جاٹ آرہا ہے۔ لیکن اب واپس کون جاتا۔ عبدالغفار یعنی کبوتروں والا سائیں تکیے سے باہر نکلا۔ اس کے منہ سے لعاب نکل رہا تھا جو کہ میلے کُرتے پر گر کر دیر تک گلیسرین کی طرح چمکتا رہتا تھا۔ تکیے سے نکل کر سیدھا کھیتوں کا رخ کیا کرتا تھا اور سارا دن وہیں گزار دیتا تھا۔ شام کو جب ڈھورڈنگر واپس گاؤں کو آتے تو ان کے چلنے سے جو دھول اُڑتی ہے اس کے پیچھے کبھی کبھی غفار کی شکل نظر آجاتی تھی۔ گاؤں اس کو پسند نہیں تھا۔ اجاڑ اور سنسان جگہوں سے اسے غیر محسوس طور پر محبت تھی یہاں بھی لوگ اس کا پیچھا نہ چھوڑتے تھے اور اس سے طرح طرح کے سوال پوچھتے تھے۔ جب برسات میں دیر ہو جاتی تو قریب قریب سب کسان اس سے درخواست کرتے تھے کہ وہ پانی بھرے بادلوں کیلیے دعا مانگے اور گاؤں کے عشق پیشہ جوان اس سے اپنے دل کا حال بیان کرتے اور پوچھتے کہ وہ کب اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے، نوجوان چھوکریاں بھی چپکے چپکے دھڑکتے ہوئے دلوں سے اس کے سامنے اپنی محبت کا اعتراف کرتی تھیں اور یہ جاننا چاہتی تھیں کہ ان کے

’’ماہیا‘‘

کا دل کیسا ہے۔ عبدالغفار ان سوالیوں کو اوٹ پٹانگ جواب دیا کرتا تھا اس لیے کہ اسے غیب کی باتیں کہاں معلوم تھیں، لیکن لوگ جو اس کے پاس سوال لیکر آتے تھے اس کی بے ربط باتوں میں اپنا مطلب ڈھونڈ لیا کرتے تھے۔ عبدالغفار مختلف کھیتوں میں سے ہوتا ہوا اس کنویں کے پاس پہنچ گیا جو کہ ایک زمانے سے بیکار پڑا تھا۔ اس کنویں کی حالت بہت ابتر تھی۔ اس بوڑھے برگد کے پتے جو کہ سالہا سال سے اس کے پہلو میں کھڑا تھا اس قدر اس میں جمع ہو گئے تھے کہ اب پانی نظر ہی نہ آتا تھا اور ایسا معلوم ہوتا کہ بہت سی مکڑیوں نے مل کر پانی کی سطح پر موٹا سا جالا بُن دیا ہے۔ اس کنویں کی ٹوٹی ہوئی منڈیر پر غبدالغفار بیٹھ گیا اور دوسروں کی اُداس فضا میں اس نے اپنے وجود سے اور بھی اداسی پیدا کردی۔ دفعتاً اُڑتی ہوئی چیلوں کی اُداس چیخوں کو عقب میں چھوڑتی ہوئی ایک بلند آواز اُٹھی اور بوڑھے برگد کی شاخوں میں ایک کپکپاہٹ سی دوڑ گئی۔ نیتی گا رہی تھی ؂ ماہی مرے نے باگ لوایا چمپا، میوا خوب کِھلایا اَسی تے لوایاں کھٹیاں وے راتیں سون نہ دیندیاں اکھیاں وے اس گیت کا مطلب یہ تھا کہ میرے ماہیا یعنی میرے چاہنے والے نے ایک باغ لگایا ہے، اس میں ہر طرح کے پھول اُگائے ہیں، چمپا، میوا وغیرہ کھلائے ہیں۔ اور ہم نے تو صرف نارنگیاں لگائی ہیں۔ رات کو آنکھیں سونے نہیں دیتیں۔ کتنی انکساری برتی گئی ہے۔ معشوق عاشق کے لگائے ہوئے باغ کی تعریف کرتا ہے، لیکن وہ اپنی جوانی کے باغ کی طرف نہایت انکسارانہ طور پر اشارہ کرتا ہے جس میں حقیر نارنگیاں لگی ہیں اور پھر شب جوابی کا گلہ کِس خُوبی سے کیا گیا ہے۔ گو عبدالغفار میں نازک جذبات بالکل نہیں تھے پھر بھی نیتی کی جوان آواز نے اس کو چونکا دیا اور وہ اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ اس نے پہچان لیا تھا کہ یہ آواز نیتی کی ہے۔ گاتی گاتی نیتی کنویں کی طرف آنکلی۔ غفار کو دیکھ کروہ دوڑی ہُوئی اس کے پاس آئی اور کہنے لگی۔

’’اوہ، غفار سائیں۔ تم۔ اوہ، مجھے تم سے کتنی باتیں پوچھنا ہیں۔ اور اس وقت یہاں تمہارے اور میرے سوا اور کوئی بھی نہیں۔ دیکھو میں تمہارا منہ میٹھا کراؤں گی اگر تم نے میرے دل کی بات بُوجھ لی اور۔ لیکن تم تو سب کچھ جانتے ہو۔ اللہ والوں سے کسی کے دل کا حال چُھپا تھوڑی رہتا ہے۔ ‘‘

وہ اُس کے پاس زمین پر بیٹھ گئی اور اس کے میلے کرتے پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ خلافِ معمول کبوتروں والا سائیں مسکرایا مگر نیتی اس کی طرف دیکھ نہیں رہی تھی، اس کی نگاہیں گاڑہے کے تانے بانے پربغیر کسی مطلب کے تیر رہی تھیں۔ کُھردرے کپڑے پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے اس نے گردن اُٹھائی اور آہوں میں کہنا شروع کیا۔

’’غفار سائیں تم اللہ میاں سے محبت کرتے ہو اور میں۔ میں ایک آدمی سے محبت کرتی ہُوں۔ تم میرے دل کا حال کیا سمجھو گے!۔ اللہ میاں کی محبت اور اس کے بندے کی محبت ایک جیسی تو ہو نہیں سکتی۔ کیوں غفار سائیں۔ ارے تم بولتے کیوں نہیں۔ کچھ بولو۔ کچھ کہو۔ اچھا تو میں ہی بولے جاؤں گی۔ تم نہیں جانتے کہ آج میں کتنی دیر بول سکتی ہوں۔ تم سُنتے سُنتے تھک جاؤ گے پر میں نہیں تھکوں گی۔ ‘‘

یہ کہتے کہتے وہ خاموش ہو گئی اور اس کی سنجیدگی زیادہ بڑھ گئی۔ اپنے من میں غوطہ لگانے کے بعد جب وہ ابھری تو اس نے ایکا ایکی عبدالغفار سے پوچھا۔

’’سائیں۔ میں کب تھکوں گی؟‘‘

عبدالغفار کے منہ سے لعاب نکلنا بند ہو گیا۔ اس نے کنویں کے اندر جُھک کر دیکھتے ہُوئے جواب دیا۔

’’بہت جلد۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ اُٹھ کھڑا ہُوا۔ اس پر نیتی نے اس کے کرتے کا دامن پکڑ لیا اور گھبرا کر پوچھا۔

’’کب؟۔ کب؟۔ سائیں کب؟‘‘

عبدالغفار نے اس کاکوئی جواب نہ دیا اور ببول کے جُھنڈ کی طرف بڑھنا شروع کردیا۔ نیتی کچھ دیر کنویں کے پاس سوچتی رہی پھر تیز قدموں سے جدھر سائیں گیا تھا اُدھر چل دی۔ وہ رات جس میں سُندر جاٹ گاؤں پر ڈاکہ ڈالنے کے لیے آرہا تھا۔ مائی جیواں نے آنکھوں میں کاٹی۔ ساری رات وہ اپنی کھاٹ پر لحاف اوڑھے جاگتی رہی۔ وہ بالکل اکیلی تھی۔ رحمان کو اس نے دوسرے گاؤں بھیج دیا اور عبدالغفار نہ جانے کہاں سو گیا تھا۔ ابو پہلوان کبھی کبھی تکیے میں آگ تاپتا تاپتا وہیں الاؤ کے پاس سو جایا کرتا تھا مگر وہ صبح ہی سے دکھائی نہیں دیا تھا، چنانچہ کتوبروں کو دانہ مائی جیواں ہی نے کِھلایا تھا۔ تکیہ گاؤں کے اس سِرے پرواقع تھا جہاں سے لوگ گاؤں کے اندر داخل ہوتے تھے۔ مائی جیواں ساری رات جاگتی رہی مگر اس کو ہلکی سی آہٹ بھی سُنائی نہ دی۔ جب رات گزر گئی اور گاؤں کے مرغوں نے اذانیں دینا شروع کردیں تو وہ سُندر جاٹ کی بابت سوچتی سوچتی سو گئی۔ چونکہ رات کو وہ بالکل نہ سوئی تھی اس لیے صبح بہت دیر کے بعد جاگی۔ کوٹھڑی سے نکل کر جب وہ باہر آئی تو اس نے دیکھا کہ ابو پہلوان کبوتروں کو دانہ دے رہا ہے اور دھوپ سارے تکیے میں پھیلی ہوئی ہے۔ اس نے باہر نکلتے ہی اس سے کہا۔

’’ساری رات مجھے نیند نہیں آئی۔ یہ موا بڑھاپا بڑا تنگ کررہا ہے۔ صبح سوئی ہوں اور اب اُٹھی ہوں۔ ہاں تم سناؤ کل کہاں رہے ہو؟‘‘

ابو نے جواب دیا۔

’’گاؤں میں۔ ‘‘

اس پر مائی جیواں نے کہا۔

’’کوئی تازہ خبر سناؤ۔ ‘‘

ابو نے جھولی کے سب دانے زمین پر گرا کر اور جھپٹ کر ایک کبوتر کو بڑی صفائی سے اپنے ہاتھ میں دبوچتے ہوئے کہا۔

’’آج صبح چوپال پر نتھا سنگھ کہہ رہا تھا کہ گام چمار کی وہ لونڈیا۔ کیا نام ہے اس کا؟۔ ہاں وہ نیتی کہیں بھاگ گئی ہے؟۔ میں تو کہتا ہوں اچھا ہوا۔ حرامزادی نے سارا گاؤں سر پر اٹھا رکھا تھا۔ ‘‘

’’کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہے یا کوئی اُٹھا کر لے گیا ہے؟‘‘

’’جانے میری بلا۔ لیکن میرے خیال میں تو وہ خود ہی کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ ‘‘

مائی جیواں کو اس گفتگو سے اطمینان نہ ہوا۔ سُندر جاٹ نے ڈاکہ نہیں ڈالا تھا پر ایک چھوکری تو غائب ہو گئی تھی۔ اب وہ چاہتی تھی کہ کسی نہ کسی طرح نیتی کا غائب ہو جانا سُندر جاٹ سے متعلق ہو جائے۔ چنانچہ وہ ان تمام لوگوں سے نیتی کے بارے میں پوچھتی رہی جو کہ تکیے میں آتے جاتے رہے لیکن جو کچھ ابو نے بتایا تھا اس سے زیادہ اسے کوئی بھی نہ بتا سکا۔ شام کورحمان لوٹ آیا۔ اس نے آتے ہی ماں سے سُندر جاٹ کے ڈاکہ کے متعلق پوچھا۔ اس پر مائی جیواں نے کہا۔

’’سندر جاٹ تو نہیں آیا بیٹا پر نیتی کہیں غائب ہو گئی ہے۔ ایسی کہ کچھ پتہ ہی نہیں چلتا۔ ‘‘

رحمان کو ایسا محسوس ہوا کہ اس کی ٹانگوں میں دس کوس اور چلنے کی تھکاوٹ پیدا ہو گئی ہے۔ وہ اپنی ماں کے پاس بیٹھ گیا، اس کا چہرہ خوفناک طور پر زرد تھا۔ ایک دم یہ تبدیلی دیکھ کر مائی جیواں نے تشویشناک لہجہ میں اس سے پوچھا۔

’’کیا ہوا بیٹا۔ ‘‘

رحمان نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری اور کہا۔

’’کچھ نہیں ماں۔ تھک گیا ہوں۔ ‘‘

’’اور نیتی کل مجھ سے پوچھتی تھی، میں کب تھکوں گی؟‘‘

رحمان نے پلٹ کر دیکھا تو اس کا بھائی عبدالغفار آستین سے اپنے منہ کا لعاب پونچھ رہا تھا۔ رحمان نے اس کی طرف گھور کردیکھا اور پوچھا

’’کیا کہا تھا اس نے تجھ سے؟‘‘

عبدالغفار الاؤ کے پاس بیٹھ گیا۔

’’کہتی تھی کہ میں تھکتی ہی نہیں۔ پر اب وہ تھک جائے گی۔ ‘‘

رحمان نے تیزی سے پوچھا۔

’’کیسے؟‘‘

غفار سائیں کے چہرے پر ایک بے معنی سی مسکراہٹ پیدا ہُوئی۔

’’مجھے کیا معلوم؟۔ سُندر جاٹ جانے اور وہ جانے۔ ‘‘

یہ سُن کر رحمان کے چہرے پر اور زیادہ زردی چھا گئی اور مائی جیواں کی جُھریاں زیادہ گہرائی اختیار کرگئیں۔

سعادت حسن منٹو

Leave a Reply