استاد محترم کے پاس بیٹھے کچھ سمجھنے کی کوشش میں مصروف تھے کہ ایک صاحب تشریف لائے اور نہایت اعتماد سے ان موضوعات پر گفتگو شروع کر دیب جو ان کی ذہنی استعداد سے بڑھ کر تھی. استاد محترم نہایت توجہ اور انہماک سے گفت گو سنتے رہے. ساتھ ساتھ اثبات میں سر بھی ہلاتے جاتے. وہ صاحب گھنٹا بھر گفت گو فرمانے کے بعد فاتحانہ مسکراہٹ لیے رخصت ہوئے. جانے کے بعد استاد محترم نے فرمایا کہ ” لہجے کو ایسا اعتماد اور تیقن جہالت ہی بخش سکتی ہے” اور یہ سو فیصد سچی بات ہے. نہیں یقین تو افسر شاہی کے کسی کارندے سے مل کر دیکھ لیں. ہم تو جب بھی اعتماد سے معمور افسر شاہی کے کسی رکن سے ملتے ہیں تو ہمیں اپنے استاد محترم کا یہ جملہ بہت یاد آتا ہے. ان کی شخصیت میں جو غیر معمولی اعتماد ہوتا ہے اس کی وجہ جہالت ہی ہو سکتی ہے . بی اے کرنے کے بعد ایک امتحان پاس کرلو اور بیک وقت، انتظامی و مالیاتی امور کے ماہر، ماہر قانون، ماہر تعلیم، ماہر خارجہ امور، ماہر اقتصادیات، ماہر زراعت ، ماہر طب اور نہ جانے کس کس شعبے کے ماہر بن جاؤ. سپیشلائزیشن کے اس عہد میں چشم فلک نے ایسے ہر فن مولا لوگ کہاں دیکھے ہوں گے . دروغ بر گردن راوی کہ نوبل انعام ملنے کے بعد ڈاکٹر عبدالسلام کے اعزاز میں قائد اعظم یونیورسٹی نے ایک تقریب منعقد کی جس میں ڈاکٹر صاحب کو اعزازی ڈگری سے نوازا گیا. تقریب کے مہمان خصوصی اس وقت کے صدر پاکستان جناب ضیاء الحق تھے. ان کی وجہ سے بہت سے افسروں کو بھی معہ اہل وعیال اس تقریب میں شرکت کرنا پڑی. ایک افسر کی بیوی نے قدرے مرعوبیت سے دوسرے افسر کی بیوی سے کہا کہ “لگتا ہے ڈاکٹر صاحب بہت قابل انسان ہیں” . نہایت نخوت سے جواب دیا گیا کہ ” اگر قابل ہوتے تو سی ایس ایس نہ کرلیتے” عبدالسلام کی تو اوقات کیا ان نابغوں کے نزدیک تو علامہ اقبال اور محمد علی جوہر جیسے لوگ بھی ناکام قرار پاتے ہیں کہ یہ بھی مقابلے کا امتحان پاس نہ کرسکے
جیسا عرض کیا کہ یہ لوگ ہر فن مولا قسم کے ہوتے ہیں. ہر شعبے کی سطحی قسم کی معلومات رکھتے ہیں. زمینی حقائق سے مکمل طور پر نابلد ہوتے ہیں اور جاہلانہ اعتماد کی بنیاد سے پھوٹنے والی انا اس بات کی اجازت بھی نہیں دیتی کہ کسی ماہر سے مشورہ کرلیں. ان کے مشیر عام طور پر فن خوشامد میں طاق ماتحت ہوتے ہیں اور وہی مشورہ دیتے ہیں جو صاحب کی مرضی و منشا کے مطابق ہو. زمینی حقائق سے ناواقف ہونے کے باعث اکثر ایسی ناقص پالیسیاں بناتے ہیں کہ جن کے اثرات بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں . اس فرقے کو سیاست دان سخت ناپسند ہیں کہ ان کا تعلق براہ راست عوام سے ہوتا ہے. سیاست دان اپنی تمام تر رعونت کے باوجود عوام کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں.یہ بھلے اداکاری ہی کریں مگر خود کو عوام کا ہم درد ثابت کرنا پڑتا ہے ورنہ ووٹ کیوں ملنے لگے. قدرت اللہ شہاب جیسے ولی اللہ جب اپنی آپ بیتی تحریر کرتے ہیں تو بھلے وہ اس میں جمہوریت کے فضائل بیان کریں مگر ہم دردی غیر جمہوری قوتوں کے ساتھ محسوس کی جاسکتی ہے. غلام محمد، سکندر مرزا اور ایوب خان کی خامیاں بیان کرتے ہیں مگر ان کا رویہ ان کے بارے مجموعی طور ہم دردانہ ہے. تاہم حسین شہید سہروردی کے بارے میں ان کے قلم سے کوئی کلمہ خیر نہیں نکلا کیوں کہ وہ بہرحال جمہوریت پسند تھےاور افسر شاہی کو وہ اہمیت دینے کو تیار نہیں تھے جس کی یہ عادی ہے. ذوالفقار علی بھٹو کے جرائم میں سے ایک جرم یہ بھی تھا کہ وہ بھی افسر شاہی کو اس کی اوقات میں رکھتے تھے. شہاب صاحب نے بھٹو کا ذکر بھی اچھے لفظوں میں نہیں کیا.
سب اس بات کے حامی ہیں کہ ملک میں جمہوریت کا بول بالا ہو. فوجی حکومت ناپسندیدہ چیز ہے. مگر کیا فوج تنہا حکومت کر سکتی ہے؟؟؟ جواب ہوگا بالکل نہیں. یہ افسر شاہی ہی ہے جو فوج کا ایوان اقتدار کا راستہ دکھاتی ہے. پٹواری سے لے کر چیف سیکرٹری تک ایک نہایت منظم اور مربوط نظام موجود ہے. صرف وزیراعظم کو بے دخل کرنا ہے ، افسر شاہی کی شکل میں حکومت کے لیے بنا بنایا نظام حاضر . اگر ملک میں دساور کی طرح بااختیار بلدیاتی ادارے موجود ہوں تو شاید مارشل لا لگانا اتنا آسان کام نہ ہو. . یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز میں بلدیاتی اداروں کی روایت نہیں پنپ رہی. یہاں اس بات کا ذکر بے محل نہ ہوگا کہ ایوان اقتدار میں فوج سے پہلے افسر شاہی کے کل پرزے داخل ہوئے تھے. غلام محمد، چودھری محمد علی، محمد علی بوگرہ اور سکندر مرزا جیسے بیوروکریٹ ایوب خان سے پہلے اقتدار کے مزے لوٹ چکے تھے. اور بعد میں غلام اسحاق خان بھی ہر برحکومت کی مجبوری بنے رہے اور بعد ازاں چئیرمین سینٹ کے راستے ایوان صدر تک پہنچ گئے.
تاہم یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اپنی تمام تر جہالت اور سطحی پن کے باوجود یہ ادارہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے نہایت چوکنا ہے. کہا جاسکتا ہے کہ وطن عزیز کی سیاسی، سماجی اور معاشی صورت حال مثالی نہیں ہے. اس کا سبب یا تو فوج کو سمجھا جاتا ہے یا سیاست دانوں کو. کوئی یہ نہیں کہتا کہ تباہی و بربادی کی وجہ افسر شاہی ہے. یہ ادارہ اپنے اقتدار کے لیے اتنا سمجھ دار ہے کہ دونوں طرح کی حکومتوں ( عوامی اور فوجی) میں شامل رہنے کے باوجود عوامی نفرت کا رخ اپنی طرف نہیں ہونے دیتا . پاکستان کی کوئی حکومت ان کی مرضی کے بغیر نہیں چل سکتی. کسی بھی حکومت کو ناکام بنانا ان کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے. ایک ذرا سا جملہ حکومت کے تمام عوامی فلاح وبہبود کے منصوبے تباہ کرسکتا ہے کہ ” قانون اجازت نہیں دیتا” نہ جانے عوامی فلاح کے کتنے منصوبے ان کے سرخ فیتوں اور قانونی موشگافیوں کی نذر ہوگئے. کتنے بڑے بڑے ماہرین فن کی تجاویز افسران کی نخوت کی بھینٹ چڑھ گئیں مگر مجال ہے کہ کوئی انھیں مجرم گردانے. یہ پوتر کے پوتر. حالانکہ صرف مالی بدعنوانی کی بات ہی کی جائے تو یہاں ایسے پٹواری مل جائیں گے کہ جن کی کرپشن بڑے بڑے بدنام سیاست دانوں سے زیادہ ہوگی. سقوط بنگال کی وجوہات تلاش کی جائیں تو سیاست دانوں اور فوج سے زیادہ افسر شاہی اس کی مجرم نظر آتی ہے مگر انھیں کوئی کچھ نہیں کہے گا. یقین نہ آئے تو ولی اللہ بیوروکریٹ کی شہاب نامہ پھر سے پڑھ لیں.
جب تک افسر شاہی کا ادارہ موجود ہے ہم کبھی بھی خود کو آزاد تصور نہیں کرسکتے. برصغیر میں یہ ادارہ انگریز نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے تخلیق کیا تھا. اس ادارے کے ذمے ایک طرف عوام کے دلوں پر تاج برطانیہ کی ہیبت طاری کرنا تھی تو دوسری طرف عوام الناس سے ٹیکس وصول کرنا تھا. اسی لیے ڈپٹی کمشنر کو ڈپٹی کلیکٹر بھی کہا جاتا تھا. یعنی یہ ادارہ عوامی خدمت کے لیے نہیں بلکہ عوام کو زیرنگیں رکھنے، ان میں احساس غلامی پیدا کرنے اور اس احساس کو بیدار رکھنے کے لیے بنایا گیا تھا.
انیس سو سینتالیس کے بعد انگریز تو یہاں سے تشریف لے گئے مگر اپنی تربیت یافتہ افسر شاہی یہیں چھوڑ گئے کہ جس کے لچھن آج بھی وہی ہیں جو استعماری دور میں تھے. وہی ہٹو بچو کی آوازیں، وہی سول لائنز،وہی غیر معمولی مراعات، وہی صاحب کے دفتر کے سامنے سائلین کی قطاریں اور وہی انسانیت کی تذلیل. آج بھی اس ادارے کی ذمہ داری عوام پر حکومت کا رعب قائم رکھنا اور مال جمع کرکے صوبائی اور مرکزی دارالحکومت کو بھیجنا ہے. کوئی بھی افسر عوام کو جواب دہ نہیں. اگر وہ پنجاب کے کسی ضلعے کا بڑا افسر ہے تو اس کا مقصد لاہور کو خوش رکھنا ہے. لاہور خوش ہے تو وہ سکون میں چاہے اس کے بدلے عوام کو کتنی ہی اذیت کیوں نہ اٹھانی پڑے. عوامی جواب دہی نہ ہونے کی وجہ سے یہ خود کو حاکم سمجھتے ہیں اور ہم آزاد ہونے کے باوجود خود کو محکوم سمجھنے پر مجبور . عام طور پر شکوہ کیا جاتا ہے کہ پاکستانی نوجوان تعلیم تو پاکستان میں حاصل کرتا ہے مگر جب خدمت کا موقع آتا ہے تو وطن سے باہر جا کر بیٹھ جاتا ہے یہ بات درست ہے مگر ہم نے کبھی سوچا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے . پاکستان کا نوجوان تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملک سے باہر فوج یا سیاست دانوں کی وجہ سے نہیں جاتا بلکہ یہ افسر شاہی اسے وطن چھوڑنے پر مجبور کرتی ہے. جب اعلا ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ بلند آدرشوں کے ساتھ میدان عمل میں اترتا ہے تو اس کا جگہ جگہ واسطہ اپنے سے کم تعلیم یافتہ بیوروکریسی سے پڑتا ہے. احساس کمتری کی ماری بیورو کریسی اسے اس قدر زچ کرتی ہے کہ اسے دوسرا وطن ہی جائے پناہ نظر آتا ہے. ورنہ اگر عزت سے روٹی ملے تو اپنا وطن چھوڑ کر کون جاتا ہے.
پاکستان اگر آزادی چاہتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ افسر شاہی کے منہ زور گھوڑے کو لگام ڈالی جائے . اس ادارے کو کلی طور پر عوامی نمائندوں کے ماتحت کیا جائے. اس کے لیے پہلا ضروری کام تو یہ ہے کہ ان کی ملازمت کو جو غیر معمولی تحفظ حاصل ہے وہ ختم کیا جائے ان کی تقرری کنٹریکٹ پر ہو. طاقت ور بلدیاتی ادارے قائم کرکے تمام انتظامی امور انھیں سونپ دیے جائیں . چیف سیکرٹری سے لے کر پٹواری تک کی لمبی زنجیر کو توڑ کر چھوٹا کیا جائے. . مگر ایسا کرنا بہت مشکل ہے اگر کسی سیاسی راہنما نے ایسی جسارت کی تو اسے اس کی سزا بھگتنا پڑے گی. ان کے لیے کوئی مشکل نہیں کہ یہ خاموشی سے ایسے حالات پیدا کر دیں کہ فوج مداخلت پر مجبور ہو جائے. اس کے بعد عوامی نمائندے اقتدار سے بے دخل ہوکر قید و بند کی سختیوں کے ساتھ ساتھ اقتدار کے کھیل میں تماشائی کی حیثیت سے فوج کی سرپرستی میں افسر شاہی کو شاہی کرتا دیکھتے رہیں گے .
ڈاکٹر طارق کلیم