محمد مسعود
جناب محمدمسعود(مسعودکھدرپوش)جو اہم سر کاری عہدوں پر فائزرہے،قائداعظم کی اُصول پسندی کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں:
جون1947ء میں بلوچستان میں ریفرنڈم ہونے والا تھا۔میں سندھ حکومت سے چھے ہفتے کی چھٹی لے کر کوئٹہ پہنچ گیا اور وہاں سرداروں سے مذاکرات شروع کیے کہ سرداروں ہی کو شاہی جر گے کی مٹینگ میں اس بات کا فیصلہ کرنا تھا کہ بلوچستان پاکستان میں شامل ہو گایا انڈیا میں۔
مذاکرات کئی نازک مرحلوں سے گزر کر آخر کامیابی کی منزل تک پہنچ گئے۔تمام رکاوٹیں سر ہو چکی تھیں۔کانگریسی لیڈر خان عبدالصمداچکزئی اور ان کے ساتھی مایوس ہو چکے تھے اور صاف نظر آرہا تھا کہ شاہی جرگہ پاکستان کے حق میں فیصلہ دے دے گا،لیکن عین آخری مرحلے پر مخالفوں نے ایک پریشان کن چال چلی ،جس سے کھیل بگڑ جانے کا خطرہ تھا۔
سرداروں کو اس بات سے ڈرا دیا گیا کہ اگر پاکستان میں شامل ہو گئے تو مالی امداد جو اس وقت دہلی کی مرکزی حکومت سے مل رہی تھی،بند ہوجائے گی اور سر داری حقوق اور مراعات بھی ختم ہو جائیں گی۔اگر انڈیا میں رہے تو حسب سابق مالی امداد اور سر داری حقوق قائم رہیں گے۔
اس بات سے سردار بہت گھبرا گئے اور انھوں نے یہ مطالبہ کیا کہ قائداعظم اس بات کی گارنٹی دیں کہ پاکستان بن جانے کے بعد سرداروں کے تمام حقوق محفوظ رہیں گے اور مرکز کی طرف سے جو مالی امداد اب ملتی ہے،بد ستور جاری رہے گی۔
یہ بڑانازک مرحلہ تھا،کیوں کہ قائد اعظم دہلی میں تھے اور شاہی جر گے کے اجلاس میں صرف دو دن باقی تھے۔اتنی جلد ی قائد سے بات چیت کرنا بہت مشکل تھا۔آخر میں نے ایک ایکسپریس ٹیلی گرام کے ذریعے قائداعظم کو اطلاع دی کہ میں ٹیلی فون پر اگلے روز شام کے چاربجے ان سے ایک نہایت اہم بات کرنا چاہتاہوں۔
چنانچہ اسی وقت فون کے ذریعے دہلی سے رابطہ ہوا۔ کوئٹہ کے ٹیلی فون محکمہ کے مسلمان عملہ نے بہت مدد کی ۔قائداعظم فون پر آگئے اور آواز بالکل صاف تھی۔ایسے محسوس ہوا جیسے سامنے کھڑے ہیں۔
ہیلو کے فوراً بعد سلام عرض کی اور میں نے کہا:”قائداعظم !بلوچستان کے سردار پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالنے پر رضا مند ہوگئے ہیں ،لیکن وہ چاہتے ہیں کہ آپ انھیں گارنٹی دیں کہ ان کے جملہ حقوق محفوظ رہیں گے اور مالی امداد انھیں حسب سابق ملتی رہے گی۔
قائد اعظم نے پر زور لہجے میں انگریزی میں جواب دیا
”میں کوئی گارنٹی نہیں دے سکتا۔ان سے کہہ دو کہ وہ مجھ پر بھروسا کریں اور دشمنوں کے جھانسے میں نہ آئیں۔“
پھر قائد اعظم نے مجھ سے پوچھا:”تم ان سے کیا کہو گے“
میں نے قائد اعظم کے الفاظ دہرائے اور ابھی آخری لفظ میرے ہونٹوں پر تھا کہ نواب جو گزئی نے میرے ہاتھ سے ٹیلی فون لے لیا اور قائد اعظم سے مخاطب ہو کر کئی بار قائداعظم ،قائداعظم پکارا اور ٹیلی فون رکھ دیا۔
شاہی جر گے کے سردار اُس وقت سامنے بیٹھے تھے۔نواب جو گزئی نے اُس سے مخاطب ہو کر کہا:”میری بات ہوگئی ہے۔قائد نے کہا ہے فکر مت کرو۔“
پھر مجھ سے سرداروں نے دریافت کیا تو میں نے بھی یہی کہا کہ قائد کہتے ہیں”مجھ پر بھروسا کرو۔
دشمنوں کے جھانسے میں نہ آنا۔مجھ پر اعتبار کرو۔“
اس کے بعد کوئٹہ کے اخبارات نے شام کے ضمیمے شائع کر دیے اور قائد اعظم سے ٹیلی فون پر بات چیت کی خبر چاروں طرف مشتہر کردی۔دوسرے دن شاہی جر گے نے اتفاق رائے سے پاکستان میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔
قائداعظم کی اس بات پر مجھے سخت حیرت ہوئی تھی کہ اتنے نازک موقع پر بھی ڈپلومیسی سے کام نہ لیا اور دوٹوک جواب دے دیا۔جس میں کسی قسم کا رکھ رکھاؤ نہ تھا۔حالانکہ قائد کو اس بات کا علم تھاکہ کانگریسی ایجنٹ سرداروں کو اس قسم کی گارنٹی اور وعدے دے کر پھسلانے کی کوشش کررہے تھے ۔
وقت کا تقاضا بھی یہی تھاکہ قائد اعظم بھی کوئی سبزباغ دکھا کر وقتی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ،لیکن انھوں نے بلا خطر صاف بات کہہ دی اورکسی قسم کی سودے بازی سے انکار کر دیا۔ یہ تھا اُن کا بے نظیر کردار۔ایسے نازک وقت میں جب کہ مملکت کی بقا کا مسئلہ سامنے ہو اور صاف گوئی سے سخت نقصان کا احتمال ہوتو کون یہ جرأت کر سکتا ہے کہ سچ کا دامن تھامے رکھے۔