Urdu Section – Hybrid Learning https://hybridlearning.pk Online Learning Tue, 02 Jul 2024 07:05:57 +0000 en-US hourly 1 https://wordpress.org/?v=6.5.5 ڈاؤن سنڈروم بچوں کی تربیت کے حوالے سے چند رہنما اصول https://hybridlearning.pk/2023/08/06/%da%88%d8%a7%d8%a4%d9%86-%d8%b3%d9%86%da%88%d8%b1%d9%88%d9%85-%d8%a8%da%86%d9%88%da%ba-%da%a9%db%8c-%d8%aa%d8%b1%d8%a8%db%8c%d8%aa-%da%a9%db%92-%d8%ad%d9%88%d8%a7%d9%84%db%92-%d8%b3%db%92-%da%86%d9%86/ https://hybridlearning.pk/2023/08/06/%da%88%d8%a7%d8%a4%d9%86-%d8%b3%d9%86%da%88%d8%b1%d9%88%d9%85-%d8%a8%da%86%d9%88%da%ba-%da%a9%db%8c-%d8%aa%d8%b1%d8%a8%db%8c%d8%aa-%da%a9%db%92-%d8%ad%d9%88%d8%a7%d9%84%db%92-%d8%b3%db%92-%da%86%d9%86/#respond Sun, 06 Aug 2023 07:42:48 +0000 https://hybridlearning.pk/2023/08/06/%da%88%d8%a7%d8%a4%d9%86-%d8%b3%d9%86%da%88%d8%b1%d9%88%d9%85-%d8%a8%da%86%d9%88%da%ba-%da%a9%db%8c-%d8%aa%d8%b1%d8%a8%db%8c%d8%aa-%da%a9%db%92-%d8%ad%d9%88%d8%a7%d9%84%db%92-%d8%b3%db%92-%da%86%d9%86/ ڈاؤن سنڈروم والے بچوں کی تربیت کے لیے صبر، سمجھ بوجھ اور ان کی غیرمعمولی ضروریات کو پورا کرنے اور صلاحیتوں کو نکھارنے کیلئے دیگر […]

]]>
ڈاؤن سنڈروم والے بچوں کی تربیت کے لیے صبر، سمجھ بوجھ اور ان کی غیرمعمولی ضروریات کو پورا کرنے اور صلاحیتوں کو نکھارنے کیلئے دیگر بچوں کی بنسبت مختلف انداز اپنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے بچوں کی دیکھ بھال سے متعلق چند رہنما اصول درج ذیل ہیں:

1) ابتدائی تھیراپی: ابتدائی تھیراپی جیسے کہ اسپیچ تھیراپی، فزیکل تھیراپی اور پیشہ ورانہ تھیراپی ڈاؤن سنڈروم کے شکار بچوں میں مہارتیں پیدا کرنے اور ان کی علمی ترقی میں مدد کر سکتی ہیں۔

2) جامع تعلیم: جب بھی ممکن ہو ان کا جامع تعلیمی سرگرمیوں میں اندراج کرائیں اور اگر ہوسکے تو انہیں مخصوص اسکول میں داخلہ کرائیں۔ اس سے نہ صرف ان کی مثبت ذہن سازی ہوگی بلکہ سماجی تعامل اور ہنر کی نشوونما ہوگی۔

3) صحت کی دیکھ بھال اور باقاعدہ چیک اپ: ایسے بچوں کی صحت اور اس سے متعلق کسی بھی طبی خدشات کو دور کرنے کیلئے بروقت اقدامات کو یقینی بنانے کے لیے طبی پیشہ ور افراد کے ساتھ باقاعدہ طبی معائنہ اور مشاورت ضروری ہے۔

4) منظم معمولات اور مستحکم روابط: ڈاؤن سنڈروم والے بچے اکثر واضح معمولات کے ساتھ منظم ماحول میں پروان چڑھتے ہیں۔ بہترین نظام الاوقات اور مستحکم روابط ان کی توقعات کو سمجھنے اور ان کے اضطراب کو کم کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔

5) صبر اور مثبت طرزعمل: اہلخانہ کی طرف سے مثبت طرزعمل، تعریف، صبر اور اچھے کاموں پر حوصلہ افزائی، ایسے بچوں میں بہترین رویے کو تقویت دیتی ہے اور ان میں مثبت طور پر متحرک رہنے کے جذبے کو ابھارتی ہے۔

سماجی ہنر کی تربیت: ایسے بچوں میں سماجی صلاحیتیں اور روابط پیدا کرنے کیلئے کام کریں، دوسرے لوگوں کے ساتھ پراعتماد تعلقات  استوار کرنے میں ان کی رہنمائی کریں۔

غذائیت اور ورزش: ڈاؤن سنڈروم بچوں کی غذائیت اور صحت پر دوسرے بچوں کے مقابلے میں زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ متوازن غذا اور باقاعدہ جسمانی سرگرمی مجموعی صحت اور تندرستی میں معاون ہے۔

سپورٹ گروپس اور وسائل: والدین کیلئے مقامی سپورٹ گروپس یا آن لائن کمیونٹیز کے ساتھ جڑنا، انتہائی مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ ایسے بچوں کی تربیت سے متعلق والدین کو بصیرت، موثر تجاویز اور جذباتی مدد فراہم ہوسکتی ہے۔

انفرادی نقطہ نظر: ڈاؤن سنڈروم میں مبتلا ہر بچہ منفرد ہوتا ہے، اس لیے ان کی سوچ، دلچسپیوں اور چیلنجز کے لیے اہلخانہ کا اپنا مستحکم نقطہ نظر اپنانا ضروری ہے۔

آزادی کو فروغ دیں: روزمرہ کے کاموں اور سرگرمیوں میں ان کو تھوڑی آزادی فراہم کریں تاکہ ان میں چھُپی صلاحیت اور خود اعتمادی کو فروغ ملے۔

ان کی کامیابیوں پر جشن منائیں: ان کی کامیابیوں کو تسلیم کریں اور اسے منائیں، چاہے وہ کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہوں۔ آپ کا محض یہ چھوٹا سا اقدام ان کی خود اعتمادی اور حوصلہ افزائی کو 100 گنا تک بڑھا سکتا ہے۔

بہن بھائیوں کی شمولیت : ڈاؤن سنڈروم والے بچوں کی دیکھ بھال میں بہن بھائیوں کا کردار بھی اتنا ہی اہم ہوتا ہے جتنا والدین کا، اہلخانہ اپنے مابین تعلقات اور افہام و تفہیم کو فروغ دیں تاکہ ایسے بچوں کا اپنے گھر والوں پر مکمل اعتماد ہو اور ان میں احساس تحفظ پیدا ہو۔

تخلیقی طریقے: ڈاؤن سنڈروم والے بچوں میں ذہنی صلاحیتوں کو تیز کرنے کیلئے تخلیقی اور دل چسپ طریقے استعمال کریں جیسے کہ گیمز اور آرٹ سیکھنے کے عمل کو خوشگوار اور موثر بنائیں۔

عزت اور وقار : ایسے بچوں کے ساتھ اسی احترام اور وقار کے ساتھ پیش آئیں جیسا کہ آپ کسی دوسرے بچے کے ساتھ پیش آتے ہیں۔

مستقبل کی منصوبہ بندی: جیسے جیسے ڈاؤن سنڈروم والے بچے بڑے ہوتے ہیں، ان کی بلوغت کے لیے منصوبہ بندی کرنا ضروری ہے بشمول تعلیم و روزگار وغیرہ جو ان کی ذہنی سطح کے حساب سے ہو۔

]]>
https://hybridlearning.pk/2023/08/06/%da%88%d8%a7%d8%a4%d9%86-%d8%b3%d9%86%da%88%d8%b1%d9%88%d9%85-%d8%a8%da%86%d9%88%da%ba-%da%a9%db%8c-%d8%aa%d8%b1%d8%a8%db%8c%d8%aa-%da%a9%db%92-%d8%ad%d9%88%d8%a7%d9%84%db%92-%d8%b3%db%92-%da%86%d9%86/feed/ 0
عظیم قائد کی اصول پسندی https://hybridlearning.pk/2022/09/02/%d8%b9%d8%b8%db%8c%d9%85-%d9%82%d8%a7%d8%a6%d8%af-%da%a9%db%8c-%d8%a7%d8%b5%d9%88%d9%84-%d9%be%d8%b3%d9%86%d8%af%db%8c/ https://hybridlearning.pk/2022/09/02/%d8%b9%d8%b8%db%8c%d9%85-%d9%82%d8%a7%d8%a6%d8%af-%da%a9%db%8c-%d8%a7%d8%b5%d9%88%d9%84-%d9%be%d8%b3%d9%86%d8%af%db%8c/#respond Fri, 02 Sep 2022 11:50:48 +0000 https://hybridlearning.pk/2022/09/02/%d8%b9%d8%b8%db%8c%d9%85-%d9%82%d8%a7%d8%a6%d8%af-%da%a9%db%8c-%d8%a7%d8%b5%d9%88%d9%84-%d9%be%d8%b3%d9%86%d8%af%db%8c/ محمد مسعود جناب محمدمسعود(مسعودکھدرپوش)جو اہم سر کاری عہدوں پر فائزرہے،قائداعظم کی اُصول پسندی کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں: جون1947ء میں بلوچستان میں ریفرنڈم ہونے […]

]]>
محمد مسعود
جناب محمدمسعود(مسعودکھدرپوش)جو اہم سر کاری عہدوں پر فائزرہے،قائداعظم کی اُصول پسندی کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں:
جون1947ء میں بلوچستان میں ریفرنڈم ہونے والا تھا۔میں سندھ حکومت سے چھے ہفتے کی چھٹی لے کر کوئٹہ پہنچ گیا اور وہاں سرداروں سے مذاکرات شروع کیے کہ سرداروں ہی کو شاہی جر گے کی مٹینگ میں اس بات کا فیصلہ کرنا تھا کہ بلوچستان پاکستان میں شامل ہو گایا انڈیا میں۔

مذاکرات کئی نازک مرحلوں سے گزر کر آخر کامیابی کی منزل تک پہنچ گئے۔تمام رکاوٹیں سر ہو چکی تھیں۔کانگریسی لیڈر خان عبدالصمداچکزئی اور ان کے ساتھی مایوس ہو چکے تھے اور صاف نظر آرہا تھا کہ شاہی جرگہ پاکستان کے حق میں فیصلہ دے دے گا،لیکن عین آخری مرحلے پر مخالفوں نے ایک پریشان کن چال چلی ،جس سے کھیل بگڑ جانے کا خطرہ تھا۔

سرداروں کو اس بات سے ڈرا دیا گیا کہ اگر پاکستان میں شامل ہو گئے تو مالی امداد جو اس وقت دہلی کی مرکزی حکومت سے مل رہی تھی،بند ہوجائے گی اور سر داری حقوق اور مراعات بھی ختم ہو جائیں گی۔اگر انڈیا میں رہے تو حسب سابق مالی امداد اور سر داری حقوق قائم رہیں گے۔

اس بات سے سردار بہت گھبرا گئے اور انھوں نے یہ مطالبہ کیا کہ قائداعظم اس بات کی گارنٹی دیں کہ پاکستان بن جانے کے بعد سرداروں کے تمام حقوق محفوظ رہیں گے اور مرکز کی طرف سے جو مالی امداد اب ملتی ہے،بد ستور جاری رہے گی۔

یہ بڑانازک مرحلہ تھا،کیوں کہ قائد اعظم دہلی میں تھے اور شاہی جر گے کے اجلاس میں صرف دو دن باقی تھے۔اتنی جلد ی قائد سے بات چیت کرنا بہت مشکل تھا۔آخر میں نے ایک ایکسپریس ٹیلی گرام کے ذریعے قائداعظم کو اطلاع دی کہ میں ٹیلی فون پر اگلے روز شام کے چاربجے ان سے ایک نہایت اہم بات کرنا چاہتاہوں۔

چنانچہ اسی وقت فون کے ذریعے دہلی سے رابطہ ہوا۔ کوئٹہ کے ٹیلی فون محکمہ کے مسلمان عملہ نے بہت مدد کی ۔قائداعظم فون پر آگئے اور آواز بالکل صاف تھی۔ایسے محسوس ہوا جیسے سامنے کھڑے ہیں۔
ہیلو کے فوراً بعد سلام عرض کی اور میں نے کہا:”قائداعظم !بلوچستان کے سردار پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالنے پر رضا مند ہوگئے ہیں ،لیکن وہ چاہتے ہیں کہ آپ انھیں گارنٹی دیں کہ ان کے جملہ حقوق محفوظ رہیں گے اور مالی امداد انھیں حسب سابق ملتی رہے گی۔

قائد اعظم نے پر زور لہجے میں انگریزی میں جواب دیا
”میں کوئی گارنٹی نہیں دے سکتا۔ان سے کہہ دو کہ وہ مجھ پر بھروسا کریں اور دشمنوں کے جھانسے میں نہ آئیں۔“
پھر قائد اعظم نے مجھ سے پوچھا:”تم ان سے کیا کہو گے“
میں نے قائد اعظم کے الفاظ دہرائے اور ابھی آخری لفظ میرے ہونٹوں پر تھا کہ نواب جو گزئی نے میرے ہاتھ سے ٹیلی فون لے لیا اور قائد اعظم سے مخاطب ہو کر کئی بار قائداعظم ،قائداعظم پکارا اور ٹیلی فون رکھ دیا۔

شاہی جر گے کے سردار اُس وقت سامنے بیٹھے تھے۔نواب جو گزئی نے اُس سے مخاطب ہو کر کہا:”میری بات ہوگئی ہے۔قائد نے کہا ہے فکر مت کرو۔“
پھر مجھ سے سرداروں نے دریافت کیا تو میں نے بھی یہی کہا کہ قائد کہتے ہیں”مجھ پر بھروسا کرو۔

دشمنوں کے جھانسے میں نہ آنا۔مجھ پر اعتبار کرو۔“
اس کے بعد کوئٹہ کے اخبارات نے شام کے ضمیمے شائع کر دیے اور قائد اعظم سے ٹیلی فون پر بات چیت کی خبر چاروں طرف مشتہر کردی۔دوسرے دن شاہی جر گے نے اتفاق رائے سے پاکستان میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔

قائداعظم کی اس بات پر مجھے سخت حیرت ہوئی تھی کہ اتنے نازک موقع پر بھی ڈپلومیسی سے کام نہ لیا اور دوٹوک جواب دے دیا۔جس میں کسی قسم کا رکھ رکھاؤ نہ تھا۔حالانکہ قائد کو اس بات کا علم تھاکہ کانگریسی ایجنٹ سرداروں کو اس قسم کی گارنٹی اور وعدے دے کر پھسلانے کی کوشش کررہے تھے ۔

وقت کا تقاضا بھی یہی تھاکہ قائد اعظم بھی کوئی سبزباغ دکھا کر وقتی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ،لیکن انھوں نے بلا خطر صاف بات کہہ دی اورکسی قسم کی سودے بازی سے انکار کر دیا۔ یہ تھا اُن کا بے نظیر کردار۔ایسے نازک وقت میں جب کہ مملکت کی بقا کا مسئلہ سامنے ہو اور صاف گوئی سے سخت نقصان کا احتمال ہوتو کون یہ جرأت کر سکتا ہے کہ سچ کا دامن تھامے رکھے۔

]]>
https://hybridlearning.pk/2022/09/02/%d8%b9%d8%b8%db%8c%d9%85-%d9%82%d8%a7%d8%a6%d8%af-%da%a9%db%8c-%d8%a7%d8%b5%d9%88%d9%84-%d9%be%d8%b3%d9%86%d8%af%db%8c/feed/ 0
سونے کی تین ڈلیاں https://hybridlearning.pk/2022/09/02/%d8%b3%d9%88%d9%86%db%92-%da%a9%db%8c-%d8%aa%db%8c%d9%86-%da%88%d9%84%db%8c%d8%a7%da%ba/ https://hybridlearning.pk/2022/09/02/%d8%b3%d9%88%d9%86%db%92-%da%a9%db%8c-%d8%aa%db%8c%d9%86-%da%88%d9%84%db%8c%d8%a7%da%ba/#respond Fri, 02 Sep 2022 11:44:55 +0000 https://hybridlearning.pk/2022/09/02/%d8%b3%d9%88%d9%86%db%92-%da%a9%db%8c-%d8%aa%db%8c%d9%86-%da%88%d9%84%db%8c%d8%a7%da%ba/ مسعود احمد برکاتی دو بھائی تھے۔ایک امیر تھا ایک غریب تھا۔امیر کا نام امیروف اور غریب کا نام سلیموف۔دونوں میں بنتی نہیں تھی۔بات یہ تھی […]

]]>
مسعود احمد برکاتی
دو بھائی تھے۔ایک امیر تھا ایک غریب تھا۔امیر کا نام امیروف اور غریب کا نام سلیموف۔دونوں میں بنتی نہیں تھی۔بات یہ تھی کہ امیروف سلیموف کو پسند نہیں کرتا تھا۔ایک دن سلیموف کو ضرورت پڑی تو اس نے کچھ دیر کے لئے بڑے بھائی سے گھوڑا مانگا۔
سردیاں آنے والی تھیں اور جنگل سے لکڑیاں لانی تھیں۔امیروف چاہتا تو نہ تھا پھر بھی اس نے گھوڑا دے دیا۔سلیموف جنگل سے لکڑیاں لے آیا۔رات ہو گئی تھی۔ اس کے پاس رسی نہیں تھی۔اس لئے اس نے دروازے سے اس کی دم باندھ دی۔رات کو گھوڑا بھاگ گیا۔
دم ٹوٹ گئی۔سلیموف بڑی مشکل سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر گھوڑا واپس لایا،مگر امیروف نے بے دم کا گھوڑا لینے سے انکار کر دیا۔اس نے کہا کہ میں تو کچہری میں مقدمہ کروں گا۔

دونوں بھائی شہر روانہ ہو گئے۔شہر بہت دور تھا۔راستے میں رات ہو گئی۔

امیروف کے ایک دوست کا گھر قریب تھا۔وہ دونوں اس دوست کے گھر ٹھہر گئے۔امیروف اور اس کا دوست گھر کے اندر آرام کرنے لگے۔سلیموف کو گھر کے اندر جگہ نہ ملی تو وہ چھجے پر لیٹ گیا۔سلیموف کی آنکھ لگ گئی ۔سوتے میں اس نے کروٹ لی تو وہ نیچے گر گیا۔
نیچے دوست کا بچہ بیٹھا تھا۔وہ دب کر مر گیا۔دوست بہت غصے ہوا۔اس نے کہا،”میں بھی مقدمہ کروں گا۔“
اب تینوں شہر کو چل پڑے۔راستے میں پل آیا۔سلیموف نے دو دو مقدموں میں سزا کے ڈر سے پل پر سے چھلانگ لگا دی۔نیچے ایک نوجوان اپنے بوڑھے بیمار باپ کو لے کر جا رہا تھا۔
سلیموف بوڑھے پر جاپڑا۔بڈھا مر گیا۔نوجوان بھی مقدمہ کرنے کے لئے ان کے ساتھ ہو گیا۔
چلتے چلتے شہر آگیا تو وہ کچہری پہنچے۔جج آیا اور کچہری لگی۔سلیموف نے راستے سے ایک پتھر اٹھا کر رومال میں لپیٹ لیا تھا۔امیروف نے اپنا دعوہ پیش کیا۔
سلیموف نے ڈرانے کے لئے رومال میں بندھا پتھر جج کو دکھایا۔جج سمجھا کہ رومال میں رشوت کا سونا ہے۔اس نے خوش ہو کر سلیموف کے حق میں فیصلہ دے دیا اور کہا کہ جب تک گھوڑے کی دم نہ نکل آئے گھوڑا سلیموف کے پاس رہے گا۔اب دوسرا مقدمہ پیش ہوا۔
امیروف کے دوست نے کہا کہ سلیموف نے میرے بچے کو کچل کر مار دیا۔سلیموف نے پھر رومال دکھایا اور جج پھر دھوکہ کھا گیا۔ اس نے فیصلہ دیا کہ جب تک سلیموف امروف کے دوست کو بچہ نہ لا کر دے،امیروف کا دوست سلیموف کو اپنے گھر رکھے اور کہیں جانے نہ دے۔
دوست نے سوچا ایک تو میرا بچہ امر دوسرے میں سلیموف کو اپنے گھر رکھوں اور کھلاؤں پلاؤں۔اس کا کیا بھروسہ یہ دوسرے بچے کو بھی مار دے۔
تیسرا مقدمہ کچہری میں پیش ہوا کہ سلیموف نے پل سے کود کر بوڑھے کو مارا ہے۔سلیموف کا رومال دیکھ کر جج پھر لالچ میں آگیا۔
اس نے سوچا تیسری سونے کی ڈالی بھی مجھے دینے کا اشارہ کر رہا ہے۔اس نے فیصلہ دیا کہ بوڑھے کا نوجوان بیٹا اور سلیموف اس جگہ جائیں۔ نوجوان پل پر جائے اور سلیموف پل کے نیچے کھڑا ہو جائے۔نوجوان سلیموف پر کودے اور اس کی جان لے لے۔
کچہری ختم ہوئی۔ چاروں باہر آئے۔امیروف نے پریشان ہو کر کہا کہ میں دم نکلنے کا انتظار نہیں کر سکتا۔مجھے گھوڑے کی ضرورت ہے۔تم مجھے میرا گھوڑا اسی حالت میں دے دو۔سلیموف نے کہا کہ نہیں ٹھہرو اور اس وقت کا انتظار کرو جب گھوڑے کی دم نکل آئے۔
امیروف بہت پریشان ہوا۔اس نے سلیموف کی منت سماجت کرکے اور پانچ روبل (روسی سکہ)،سترہ بوری اناج اور ایک بکری دے کر اپنا گھوڑا واپس حاصل کیا۔
اب سلیموف نے امیروف کے دوست سے کہا کہ بھوک لگ رہی ہے ،کھانا کھلاؤ۔دوست گھبرایا۔
اس نے کہا کہ بھائی،میں تمہارا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔سلیموف نے کہا کہ جج نے یہی فیصلہ دیا ہے ۔جب تک میں تمہیں بچہ لا کر نہ دوں تمہارے ساتھ رہوں گا۔امیروف کے دوست نے پچاس روبل،تئیس بوری اناج اور ایک دودھ دینے والی گائے دے کر سلیموف سے اپنی جان چھرائی۔
آخر سلیموف نوجوان کے پاس گیا اور کہا کہ آؤ پل پر چلو اور وہاں سے چھلانگ لگاؤ۔نوجوان نے سوچا کہ اگر میں اتنی اوپر سے کودا تو خود ہی مر جاؤں گا۔اس نے بھی سلیموف کو دو سو روبل،انتیس بوری اناج اور ایک بیل دے کر راضی کر لیا۔
جج نے اپنا آدمی سلیموف کے پاس بھیجا کہ سونے کی تین ڈلیاں دے دو۔
سلیموف نے رومال میں سے پتھر نکال کر دکھایا اور کہا کہ میں غریب آدمی ہوں،میرے پاس سونا کہاں،میں نے تو جج کو رومال اس لئے دکھایا تھا کہ اگر تم نے میرے خلاف فیصلہ دیا تو میں تمہیں اس پتھر سے ماروں گا۔جب اس آدمی نے جج کو جا کر یہ بات بتائی تو جج نے سکون کا سانس لیا کہ میں بچ گیا،ورنہ سلیموف مجھے مار ڈالتا۔ سلیموف خوش خوش گھر واپس آگیا۔

]]>
https://hybridlearning.pk/2022/09/02/%d8%b3%d9%88%d9%86%db%92-%da%a9%db%8c-%d8%aa%db%8c%d9%86-%da%88%d9%84%db%8c%d8%a7%da%ba/feed/ 0
بیورو کریسی کاگھوڑا https://hybridlearning.pk/2020/04/20/%d8%a8%db%8c%d9%88%d8%b1%d9%88-%da%a9%d8%b1%db%8c%d8%b3%db%8c-%da%a9%d8%a7%da%af%da%be%d9%88%da%91%d8%a7/ https://hybridlearning.pk/2020/04/20/%d8%a8%db%8c%d9%88%d8%b1%d9%88-%da%a9%d8%b1%db%8c%d8%b3%db%8c-%da%a9%d8%a7%da%af%da%be%d9%88%da%91%d8%a7/#respond Mon, 20 Apr 2020 09:47:53 +0000 https://hybridlearning.pk/2020/04/20/%d8%a8%db%8c%d9%88%d8%b1%d9%88-%da%a9%d8%b1%db%8c%d8%b3%db%8c-%da%a9%d8%a7%da%af%da%be%d9%88%da%91%d8%a7/   استاد محترم کے پاس بیٹھے کچھ سمجھنے کی کوشش میں مصروف تھے کہ ایک صاحب تشریف لائے اور نہایت اعتماد سے ان موضوعات پر […]

]]>
 

استاد محترم کے پاس بیٹھے کچھ سمجھنے کی کوشش میں مصروف تھے کہ ایک صاحب تشریف لائے اور نہایت اعتماد سے ان موضوعات پر گفتگو شروع کر دیب جو ان کی ذہنی استعداد سے بڑھ کر تھی. استاد محترم نہایت توجہ اور انہماک سے گفت گو سنتے رہے. ساتھ ساتھ اثبات میں سر بھی ہلاتے جاتے. وہ صاحب گھنٹا بھر گفت گو فرمانے کے بعد فاتحانہ مسکراہٹ لیے رخصت ہوئے. جانے کے بعد استاد محترم نے فرمایا کہ ” لہجے کو ایسا اعتماد اور تیقن جہالت ہی بخش سکتی ہے” اور یہ سو فیصد سچی بات ہے. نہیں یقین تو افسر شاہی کے کسی کارندے سے مل کر دیکھ لیں. ہم تو جب بھی اعتماد سے معمور افسر شاہی کے کسی رکن سے ملتے ہیں تو ہمیں اپنے استاد محترم کا یہ جملہ بہت یاد آتا ہے. ان کی شخصیت میں جو غیر معمولی اعتماد ہوتا ہے اس کی وجہ جہالت ہی ہو سکتی ہے . بی اے کرنے کے بعد ایک امتحان پاس کرلو اور بیک وقت، انتظامی و مالیاتی امور کے ماہر، ماہر قانون، ماہر تعلیم، ماہر خارجہ امور، ماہر اقتصادیات، ماہر زراعت ، ماہر طب اور نہ جانے کس کس شعبے کے ماہر بن جاؤ. سپیشلائزیشن کے اس عہد میں چشم فلک نے ایسے ہر فن مولا لوگ کہاں دیکھے ہوں گے . دروغ بر گردن راوی کہ نوبل انعام ملنے کے بعد ڈاکٹر عبدالسلام کے اعزاز میں قائد اعظم یونیورسٹی نے ایک تقریب منعقد کی جس میں ڈاکٹر صاحب کو اعزازی ڈگری سے نوازا گیا. تقریب کے مہمان خصوصی اس وقت کے صدر پاکستان جناب ضیاء الحق تھے. ان کی وجہ سے بہت سے افسروں کو بھی معہ اہل وعیال اس تقریب میں شرکت کرنا پڑی. ایک افسر کی بیوی نے قدرے مرعوبیت سے دوسرے افسر کی بیوی سے کہا کہ “لگتا ہے ڈاکٹر صاحب بہت قابل انسان ہیں” . نہایت نخوت سے جواب دیا گیا کہ ” اگر قابل ہوتے تو سی ایس ایس نہ کرلیتے” عبدالسلام کی تو اوقات کیا ان نابغوں کے نزدیک تو علامہ اقبال اور محمد علی جوہر جیسے لوگ بھی ناکام قرار پاتے ہیں کہ یہ بھی مقابلے کا امتحان پاس نہ کرسکے
جیسا عرض کیا کہ یہ لوگ ہر فن مولا قسم کے ہوتے ہیں. ہر شعبے کی سطحی قسم کی معلومات رکھتے ہیں. زمینی حقائق سے مکمل طور پر نابلد ہوتے ہیں اور جاہلانہ اعتماد کی بنیاد سے پھوٹنے والی انا اس بات کی اجازت بھی نہیں دیتی کہ کسی ماہر سے مشورہ کرلیں. ان کے مشیر عام طور پر فن خوشامد میں طاق ماتحت ہوتے ہیں اور وہی مشورہ دیتے ہیں جو صاحب کی مرضی و منشا کے مطابق ہو. زمینی حقائق سے ناواقف ہونے کے باعث اکثر ایسی ناقص پالیسیاں بناتے ہیں کہ جن کے اثرات بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں . اس فرقے کو سیاست دان سخت ناپسند ہیں کہ ان کا تعلق براہ راست عوام سے ہوتا ہے. سیاست دان اپنی تمام تر رعونت کے باوجود عوام کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں.یہ بھلے اداکاری ہی کریں مگر خود کو عوام کا ہم درد ثابت کرنا پڑتا ہے ورنہ ووٹ کیوں ملنے لگے. قدرت اللہ شہاب جیسے ولی اللہ جب اپنی آپ بیتی تحریر کرتے ہیں تو بھلے وہ اس میں جمہوریت کے فضائل بیان کریں مگر ہم دردی غیر جمہوری قوتوں کے ساتھ محسوس کی جاسکتی ہے. غلام محمد، سکندر مرزا اور ایوب خان کی خامیاں بیان کرتے ہیں مگر ان کا رویہ ان کے بارے مجموعی طور ہم دردانہ ہے. تاہم حسین شہید سہروردی کے بارے میں ان کے قلم سے کوئی کلمہ خیر نہیں نکلا کیوں کہ وہ بہرحال جمہوریت پسند تھےاور افسر شاہی کو وہ اہمیت دینے کو تیار نہیں تھے جس کی یہ عادی ہے. ذوالفقار علی بھٹو کے جرائم میں سے ایک جرم یہ بھی تھا کہ وہ بھی افسر شاہی کو اس کی اوقات میں رکھتے تھے. شہاب صاحب نے بھٹو کا ذکر بھی اچھے لفظوں میں نہیں کیا.
سب اس بات کے حامی ہیں کہ ملک میں جمہوریت کا بول بالا ہو. فوجی حکومت ناپسندیدہ چیز ہے. مگر کیا فوج تنہا حکومت کر سکتی ہے؟؟؟ جواب ہوگا بالکل نہیں. یہ افسر شاہی ہی ہے جو فوج کا ایوان اقتدار کا راستہ دکھاتی ہے. پٹواری سے لے کر چیف سیکرٹری تک ایک نہایت منظم اور مربوط نظام موجود ہے. صرف وزیراعظم کو بے دخل کرنا ہے ، افسر شاہی کی شکل میں حکومت کے لیے بنا بنایا نظام حاضر . اگر ملک میں دساور کی طرح بااختیار بلدیاتی ادارے موجود ہوں تو شاید مارشل لا لگانا اتنا آسان کام نہ ہو. . یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز میں بلدیاتی اداروں کی روایت نہیں پنپ رہی. یہاں اس بات کا ذکر بے محل نہ ہوگا کہ ایوان اقتدار میں فوج سے پہلے افسر شاہی کے کل پرزے داخل ہوئے تھے. غلام محمد، چودھری محمد علی، محمد علی بوگرہ اور سکندر مرزا جیسے بیوروکریٹ ایوب خان سے پہلے اقتدار کے مزے لوٹ چکے تھے. اور بعد میں غلام اسحاق خان بھی ہر برحکومت کی مجبوری بنے رہے اور بعد ازاں چئیرمین سینٹ کے راستے ایوان صدر تک پہنچ گئے.
تاہم یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اپنی تمام تر جہالت اور سطحی پن کے باوجود یہ ادارہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے نہایت چوکنا ہے. کہا جاسکتا ہے کہ وطن عزیز کی سیاسی، سماجی اور معاشی صورت حال مثالی نہیں ہے. اس کا سبب یا تو فوج کو سمجھا جاتا ہے یا سیاست دانوں کو. کوئی یہ نہیں کہتا کہ تباہی و بربادی کی وجہ افسر شاہی ہے. یہ ادارہ اپنے اقتدار کے لیے اتنا سمجھ دار ہے کہ دونوں طرح کی حکومتوں ( عوامی اور فوجی) میں شامل رہنے کے باوجود عوامی نفرت کا رخ اپنی طرف نہیں ہونے دیتا . پاکستان کی کوئی حکومت ان کی مرضی کے بغیر نہیں چل سکتی. کسی بھی حکومت کو ناکام بنانا ان کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے. ایک ذرا سا جملہ حکومت کے تمام عوامی فلاح وبہبود کے منصوبے تباہ کرسکتا ہے کہ ” قانون اجازت نہیں دیتا” نہ جانے عوامی فلاح کے کتنے منصوبے ان کے سرخ فیتوں اور قانونی موشگافیوں کی نذر ہوگئے. کتنے بڑے بڑے ماہرین فن کی تجاویز افسران کی نخوت کی بھینٹ چڑھ گئیں مگر مجال ہے کہ کوئی انھیں مجرم گردانے. یہ پوتر کے پوتر. حالانکہ صرف مالی بدعنوانی کی بات ہی کی جائے تو یہاں ایسے پٹواری مل جائیں گے کہ جن کی کرپشن بڑے بڑے بدنام سیاست دانوں سے زیادہ ہوگی. سقوط بنگال کی وجوہات تلاش کی جائیں تو سیاست دانوں اور فوج سے زیادہ افسر شاہی اس کی مجرم نظر آتی ہے مگر انھیں کوئی کچھ نہیں کہے گا. یقین نہ آئے تو ولی اللہ بیوروکریٹ کی شہاب نامہ پھر سے پڑھ لیں.
جب تک افسر شاہی کا ادارہ موجود ہے ہم کبھی بھی خود کو آزاد تصور نہیں کرسکتے. برصغیر میں یہ ادارہ انگریز نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے تخلیق کیا تھا. اس ادارے کے ذمے ایک طرف عوام کے دلوں پر تاج برطانیہ کی ہیبت طاری کرنا تھی تو دوسری طرف عوام الناس سے ٹیکس وصول کرنا تھا. اسی لیے ڈپٹی کمشنر کو ڈپٹی کلیکٹر بھی کہا جاتا تھا. یعنی یہ ادارہ عوامی خدمت کے لیے نہیں بلکہ عوام کو زیرنگیں رکھنے، ان میں احساس غلامی پیدا کرنے اور اس احساس کو بیدار رکھنے کے لیے بنایا گیا تھا.

انیس سو سینتالیس کے بعد انگریز تو یہاں سے تشریف لے گئے مگر اپنی تربیت یافتہ افسر شاہی یہیں چھوڑ گئے کہ جس کے لچھن آج بھی وہی ہیں جو استعماری دور میں تھے. وہی ہٹو بچو کی آوازیں، وہی سول لائنز،وہی غیر معمولی مراعات، وہی صاحب کے دفتر کے سامنے سائلین کی قطاریں اور وہی انسانیت کی تذلیل. آج بھی اس ادارے کی ذمہ داری عوام پر حکومت کا رعب قائم رکھنا اور مال جمع کرکے صوبائی اور مرکزی دارالحکومت کو بھیجنا ہے. کوئی بھی افسر عوام کو جواب دہ نہیں. اگر وہ پنجاب کے کسی ضلعے کا بڑا افسر ہے تو اس کا مقصد لاہور کو خوش رکھنا ہے. لاہور خوش ہے تو وہ سکون میں چاہے اس کے بدلے عوام کو کتنی ہی اذیت کیوں نہ اٹھانی پڑے. عوامی جواب دہی نہ ہونے کی وجہ سے یہ خود کو حاکم سمجھتے ہیں اور ہم آزاد ہونے کے باوجود خود کو محکوم سمجھنے پر مجبور . عام طور پر شکوہ کیا جاتا ہے کہ پاکستانی نوجوان تعلیم تو پاکستان میں حاصل کرتا ہے مگر جب خدمت کا موقع آتا ہے تو وطن سے باہر جا کر بیٹھ جاتا ہے یہ بات درست ہے مگر ہم نے کبھی سوچا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے . پاکستان کا نوجوان تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملک سے باہر فوج یا سیاست دانوں کی وجہ سے نہیں جاتا بلکہ یہ افسر شاہی اسے وطن چھوڑنے پر مجبور کرتی ہے. جب اعلا ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ بلند آدرشوں کے ساتھ میدان عمل میں اترتا ہے تو اس کا جگہ جگہ واسطہ اپنے سے کم تعلیم یافتہ بیوروکریسی سے پڑتا ہے. احساس کمتری کی ماری بیورو کریسی اسے اس قدر زچ کرتی ہے کہ اسے دوسرا وطن ہی جائے پناہ نظر آتا ہے. ورنہ اگر عزت سے روٹی ملے تو اپنا وطن چھوڑ کر کون جاتا ہے.
پاکستان اگر آزادی چاہتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ افسر شاہی کے منہ زور گھوڑے کو لگام ڈالی جائے . اس ادارے کو کلی طور پر عوامی نمائندوں کے ماتحت کیا جائے. اس کے لیے پہلا ضروری کام تو یہ ہے کہ ان کی ملازمت کو جو غیر معمولی تحفظ حاصل ہے وہ ختم کیا جائے ان کی تقرری کنٹریکٹ پر ہو. طاقت ور بلدیاتی ادارے قائم کرکے تمام انتظامی امور انھیں سونپ دیے جائیں . چیف سیکرٹری سے لے کر پٹواری تک کی لمبی زنجیر کو توڑ کر چھوٹا کیا جائے. . مگر ایسا کرنا بہت مشکل ہے اگر کسی سیاسی راہنما نے ایسی جسارت کی تو اسے اس کی سزا بھگتنا پڑے گی. ان کے لیے کوئی مشکل نہیں کہ یہ خاموشی سے ایسے حالات پیدا کر دیں کہ فوج مداخلت پر مجبور ہو جائے. اس کے بعد عوامی نمائندے اقتدار سے بے دخل ہوکر قید و بند کی سختیوں کے ساتھ ساتھ اقتدار کے کھیل میں تماشائی کی حیثیت سے فوج کی سرپرستی میں افسر شاہی کو شاہی کرتا دیکھتے رہیں گے .
ڈاکٹر طارق کلیم

]]>
https://hybridlearning.pk/2020/04/20/%d8%a8%db%8c%d9%88%d8%b1%d9%88-%da%a9%d8%b1%db%8c%d8%b3%db%8c-%da%a9%d8%a7%da%af%da%be%d9%88%da%91%d8%a7/feed/ 0
پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جرمانہ https://hybridlearning.pk/2019/09/09/%d9%be%d8%a7%da%a9%d8%b3%d8%aa%d8%a7%d9%86-%da%a9%db%8c-%d8%aa%d8%a7%d8%b1%db%8c%d8%ae-%da%a9%d8%a7-%d8%b3%d8%a8-%d8%b3%db%92-%d8%a8%da%91%d8%a7-%d8%ac%d8%b1%d9%85%d8%a7%d9%86%db%81/ https://hybridlearning.pk/2019/09/09/%d9%be%d8%a7%da%a9%d8%b3%d8%aa%d8%a7%d9%86-%da%a9%db%8c-%d8%aa%d8%a7%d8%b1%db%8c%d8%ae-%da%a9%d8%a7-%d8%b3%d8%a8-%d8%b3%db%92-%d8%a8%da%91%d8%a7-%d8%ac%d8%b1%d9%85%d8%a7%d9%86%db%81/#respond Mon, 09 Sep 2019 08:52:15 +0000 https://hybridlearning.pk/2019/09/09/%d9%be%d8%a7%da%a9%d8%b3%d8%aa%d8%a7%d9%86-%da%a9%db%8c-%d8%aa%d8%a7%d8%b1%db%8c%d8%ae-%da%a9%d8%a7-%d8%b3%d8%a8-%d8%b3%db%92-%d8%a8%da%91%d8%a7-%d8%ac%d8%b1%d9%85%d8%a7%d9%86%db%81/ ورلڈ بینک کے انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس (ICSID)نے ریکوڈک (Reko Diq) معاہدہ منسوخ کرنے پر پاکستان کی تاریخ کا تقریباً 6ارب ڈالر […]

]]>
ورلڈ بینک کے انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس (ICSID)نے ریکوڈک

(Reko Diq)

معاہدہ منسوخ کرنے پر پاکستان کی تاریخ کا تقریباً 6ارب ڈالر کا سب سے بڑا جرمانہ عائد کیا ہے جس پر پاکستان میں حسب روایت ایک کمیشن بنادیا گیا ہے کہ وہ ذمہ داروں کا تعین کرنے کیساتھ ساتھ اس معاملے کی تحقیقات کرے کہ ملک کو کس وجہ سے اتنا بڑا نقصان ہوا؟ بین الاقوامی عدالت ICSIDسے پاکستان پر جرمانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس سے قبل 22اگست 2017ء کو ترکی کی ایک پاور کمپنی سے سے رینٹل پاور معاہدہ منسوخ کرنے پر پاکستان پر تقریباً 900ملین ڈالر کا جرمانہ عائد کیا

جبکہ اس سے پہلے 1997ء میں ترکی کی ایک تعمیراتی کمپنی نے اسلام آباد پشاور موٹر وے معاہدہ منسوخ کرنے پر 756ملین ڈالر کا کلیم دائر کیا تھا لیکن ICSIDنے تکنیکی بنیادوں پر اسے مسترد کردیا۔ حال ہی میں لندن کی آربرٹیشن کورٹ نے برطانیہ کی اثاثے ریکوری کرنیوالی کمپنی جس سے جنرل پرویز مشرف کے دور میں پاکستانی سیاستدانوں کے بیرون ملک غیر قانونی اثاثے دریافت کرنے کیلئے نیب نے معاہدہ کیا تھا، کو یکطرفہ طور پر منسوخ کرنے پر پاکستان پر 33ملین ڈالر کا جرمانہ عائد کیا گیا۔ ان میں سے زیادہ تر معاہدوں کے منسوخ ہونے سے ملک کو نہ صرف ناقابل برداشت مالی نقصان پہنچا بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ شدید متاثر ہوئی جس سے پاکستان میں نئی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوئی۔

قارئین! ریکوڈک کیس میں حکومت پاکستان پر عائد کئے جانے والے سب سے بڑے جرمانے کے پس منظر سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں سونے اور تانبے کی آسٹریلوی کان کن کمپنی نے اپنی فزیبلٹی رپورٹ میں بتایا تھا کہ ریکوڈک میں تانبے کے 22ارب پائونڈ اور 13ملین اونس سونے کے ذخائر پائے جاتے ہیں جن کی مجموعی مالیت 500ارب ڈالر ہے۔ کمپنی کے مطابق یہ منصوبہ پاکستان اور بلوچستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ مذکورہ کمپنی نے سونے اور تانبے کی کان کنی کے اس منصوبے کیلئے 3.3ارب ڈالر خرچ کرنے کا اعلان کیا تھا جس میں ایئر پورٹ، سڑکیں، رہائشی مکانات اور معدنیات کی منتقلی اور گوادر تک معدنیات کی بین الاقوامی مارکیٹ تک رسائی کیلئے 682کلومیٹر طویل ٹرانسپورٹیشن پائپ لائن کی تعمیر بھی شامل تھیں۔ معاہدے کے مطابق کمپنی آمدنی کا 25فیصد بلوچستان حکومت کو بغیر کسی سرمایہ کاری کے دینے کی پابند تھی کیونکہ معدنیات صوبوں کی ملکیت ہوتی ہیں مگر اگلے 10برسوں میں اس منصوبے کی ملکیت بدلتی چلی گئی۔ نواز شریف کے پہلے دور حکومت کے بعد نگراں حکومت نے مینڈیٹ نہ ہونے کے باوجود ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی تلاش کا ٹھیکہ آسٹریلوی کی ایک کان کن کمپنی کو دے دیا تاہم 2000ء میں بی ایچ پی نے ایک اور فرم کو اس منصوبے میں شامل کرلیا جس کے بعد اس منصوبے کو آسٹریلوی کمپنی جو پاکستان میں بھی رجسٹرڈ کروائی گئی تھی، کو منتقل کردیا گیا۔ 2009ء میں کمپنی نے ایک نئی فزیبلٹی اسٹڈی رپورٹ جمع کروائی اور فروری 2011ء میں کان کنی کی درخواست دی جس کے بعد اس منصوبے میں کرپشن کی کہانیوں اور معدنی ذخائر کی لوٹ مار کے اسکینڈلز سامنے آنے لگے۔ بعد ازاں اس وقت کے وزیراعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی اور پی ٹی آئی کے سینیٹر اعظم سواتی نے منصوبے کو منسوخ کرنے کیلئے درخواست دائر کی۔ مئی 2011ء میں سپریم کورٹ نے صوبائی حکومت کو حکم دیا کہ ٹی ٹی سی پاکستان کی جانب سے دی گئی کان کنی کی درخواست پر منصفانہ اور شفاف کارروائی کی جائے۔ اس طرح عدالتی مداخلت کے بعد صوبائی حکومت نے ٹی ٹی سی پاکستان کا لائسنس منسوخ کردیا جس کے بعد سونے اور تانبے کی تلاش کیلئے دوسری کمپنیوں کو 11لائسنس جاری کئے گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان 11لائسنسوں میں سے 5لائسنس ایسی پاکستانی اور چینی کمپنیوں کو دیئے گئے جنہیں اس سے پہلے سونے اور تانبے کی کان کنی کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ پاکستان کے سونے اور تانبے کے پہلے منصوبے سینڈک کو پاکستان سینڈک میٹل اور چائنا انجینئرنگ کمپنی کے تعاون سے شروع کیا گیا تھا لیکن مالی مشکلات کے پیش نظر چائنا کی ایک اور کمپنی کو 2002ء میں 10سال کیلئے بغیر کسی مانیٹرنگ نظام کے لیز پر دے دیا گیا۔ اس کمپنی نے 2004ء سے 2008ء تک 7.746ٹن سونا نکال کر پاکستان کو سونا پیدا کرنے والے ممالک میں شامل کردیا۔ اس کے علاوہ اس منصوبے کے تحت 86013ٹن تانبا، 11046ٹن چاندی، 14482ٹن میگنائٹ کی معدنی دولت بھی حاصل کی گئی۔ ایک سروے کے مطابق چائنیز کمپنی کی لیز ختم ہونے کے بعد اس کان سے صرف 9سال تک مزید معدنیات حاصل کی جاسکتی تھیں۔

میں خاص طور پر یہ بات کہنا چاہوں گا کہ ہمیں شاید ان حساس نوعیت کے معاہدوں کی بین الاقوامی اہمیت اور انہیں یکطرفہ طور پر منسوخ کرنے کے مالی نقصانات کا اندازہ نہیں تھا۔ عالمی عدالتیں ان جرمانوں پر عملدرآمد کی صورت میں پاکستان کے بیرونی اثاثوں کی ضبطی کا حکم بھی دے سکتی ہیں جو پاکستان کی ہتک کا باعث ہوگا۔ پی ٹی آئی حکومت نے قطر سے ایل این جی گیس امپورٹ کرنے کے معاہدے کی شفافیت پر سوالیہ نشان اٹھایا ہے اور اس سلسلے میں نیب سابق وزیراعظم سے تحقیقات بھی کررہی ہے۔ پاکستان میں بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں آئی پی پیز (IPPs)کو حکومت پاکستان کی گارنٹیاں حاصل ہیں جس کی بنیاد پر یہ کمپنیاں عالمی عدالتوں میں جانے کی مجاز ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ تمام سرکاری محکموں کو بڑے معاہدے کرنے کیلئے پروفیشنل اور قانونی مہارت فراہم کی جائے تاکہ معاہدے کرتے وقت شفافیت کے ساتھ تمام قانونی شقوں کو مدنظر رکھا جاسکے اور تنازع کی صورت میں ملک کا دفاع کرتے ہوئے خطیر جرمانوں سے بچا جا سکے۔

]]>
https://hybridlearning.pk/2019/09/09/%d9%be%d8%a7%da%a9%d8%b3%d8%aa%d8%a7%d9%86-%da%a9%db%8c-%d8%aa%d8%a7%d8%b1%db%8c%d8%ae-%da%a9%d8%a7-%d8%b3%d8%a8-%d8%b3%db%92-%d8%a8%da%91%d8%a7-%d8%ac%d8%b1%d9%85%d8%a7%d9%86%db%81/feed/ 0
کبوتروں والا سائیں https://hybridlearning.pk/2018/12/04/%da%a9%d8%a8%d9%88%d8%aa%d8%b1%d9%88%da%ba-%d9%88%d8%a7%d9%84%d8%a7-%d8%b3%d8%a7%d8%a6%db%8c%da%ba/ https://hybridlearning.pk/2018/12/04/%da%a9%d8%a8%d9%88%d8%aa%d8%b1%d9%88%da%ba-%d9%88%d8%a7%d9%84%d8%a7-%d8%b3%d8%a7%d8%a6%db%8c%da%ba/#respond Tue, 04 Dec 2018 06:51:20 +0000 https://hybridlearning.pk/2018/12/04/%da%a9%d8%a8%d9%88%d8%aa%d8%b1%d9%88%da%ba-%d9%88%d8%a7%d9%84%d8%a7-%d8%b3%d8%a7%d8%a6%db%8c%da%ba/ پنجاب کے ایک سرد دیہات کے تکیے میں مائی جیواں صبح سویرے ایک غلاف چڑھی قبر کے پاس زمین کے اندر کُھدے ہوئے گڑھے میں […]

]]>
پنجاب کے ایک سرد دیہات کے تکیے میں مائی جیواں صبح سویرے ایک غلاف چڑھی قبر کے پاس زمین کے اندر کُھدے ہوئے گڑھے میں بڑے بڑے اپلوں سے آگ لگا رہی ہے۔ صبح کے سرد اور مٹیالے دھندلکے میں جب وہ اپنی پانی بھری آنکھوں کو سکیڑ کر اور اپنی کمر کو دہرا کرکے، منہ قریب قریب زمین کے ساتھ لگا کر اوپر تلے رکھے ہوئے اُپلوں کے اندر پھونک گھسیڑنے کی کوشش کرتی ہے تو زمین پر سے تھوڑی سی راکھ اڑتی ہے اور اس کے آدھے سفید اور آدھے کالے بالوں پر جو کہ گھِسے ہُوئے کمبل کا نمونہ پیش کرتے ہیں بیٹھ جاتی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بالوں میں تھوڑی سی سفیدی اور آگئی ہے۔ اُپلوں کے اندر آگ سُلگتی ہے اور یوں جو تھوڑی سی لال لال روشنی پیدا ہوتی ہے مائی جیواں کے سیاہ چہرے پر جھریوں کو اور نمایاں کردیتی ہے۔ مائی جیواں یہ آگ کئی مرتبہ سُلگا چکی ہے۔ یہ تکیہ یا چھوٹی سی خانقاہ جس کے اندر بنی ہوئی قبر کی بابت اس کے پردادا نے لوگوں کو یہ یقین دلایا تھا کہ وہ ایک بہت بڑے پیر کی آرام گاہ ہے، ایک زمانے سے اُن کے قبضہ میں تھی۔ گاما سائیں کے مرنے کے بعد اب اس کی ہوشیار بیوی ایک تکیے کی مجاور تھی۔ گاما سائیں سارے گاؤں میں ہر دلعزیز تھا۔ ذات کا وہ کُمہار تھا مگر چونکہ اسے تکیے کی دیکھ بھال کرنا ہوتی تھی۔ اس لیے اُس نے برتن بنانے چھوڑ دیئے تھے۔ لیکن اس کے ہاتھ کی بنائی ہوئی کونڈیاں اب بھی مشہور ہیں۔ بھنگ گھوٹنے کے لیے وہ سال بھر میں چھ کونڈیاں بنایا کرتا تھا جن کے متعلق بڑے فخر سے وہ یہ کہا کرتا تھا۔

’’چوہدری لوہا ہے لوہا۔ فولاد کی کونڈی ٹوٹ جائے پر گاما سائیں کی یہ کونڈی دادا لے تو اس کا پوتا بھی اسی میں بھنگ گھوٹ کرپِیے۔ ‘‘

مرنے سے پہلے گاما سائیں چھ کونڈیاں بنا کررکھ گیا تھا جو اب مائی جیواں بڑی احتیاط سے کام میں لاتی تھی۔ گاؤں کے اکثر بڈھے اور جوان تکیئے میں جمع ہوتے تھے اور سردائی پیا کرتے تھے۔ گھوٹنے کے لیے گاما سائیں نہیں تھا پر اُس کے بہت سے چیلے چانٹے جو اَب سر اور بھویں منڈا کر سائیں بن گئے تھے، اس کے بجائے بھنگ گھوٹا کرتے تھے اور مائی جیواں کی سُلگائی ہُوئی آگ سُلفہ پینے والوں کے کام آتی تھی۔ صبح اور شام کو تو خیر کافی رونق رہتی تھی، مگر دوپہر کو آٹھ دس آدمی مائی جیواں کے پاس بیری کی چھاؤں میں بیٹھے ہی رہتے تھے۔ اِدھر اُدھر کونے میں لمبی لمبی بیل کے ساتھ ساتھ کئی کابک تھے جن میں گاما سائیں کے ایک بہت پرانے دوست ابو پہلوان نے سفید کبوتر پال رکھے تھے۔ تکیئے کی دھوئیں بھری فضا میں ان سفید اور چتکبرے کبوتروں کی پھڑپھڑاہٹ بہت بھلی معلوم ہوتی تھی۔ جس طرح تکیئے میں آنے والے لوگ شکل وصورت سے معصومانہ حد تک بے عقل نظر آتے تھے اسی طرح یہ کبوتر جن میں سے اکثر کے پیروں میں مائی جیواں کے بڑے لڑکے نے جھانجھ پہنا رکھے تھے بے عقل اور معصوم دکھائی دیتے تھے۔ مائی جیواں کے بڑے لڑکے کا اصلی نام عبدالغفار تھا۔ اسکی پیدائش کے وقت یہ نام شہر کے تھانیدار کا تھا جو کبھی کبھی گھوڑی پر چڑھ کر موقعہ دیکھنے کے لیے گاؤں میں آیا کرتا تھا اور گاما سائیں کے ہاتھ کا بنا ہوا ایک پیالہ سردائی کا ضرور پیا کرتا تھا۔ لیکن اب وہ بات نہ رہی تھی۔ جب وہ گیارہ برس کا تھا تو مائی جیواں اس کے نام میں تھانیداری کی بُو سُونگھ سکتی تھی مگر جب اس نے بارہویں سال میں قدم رکھا تو اس کی حالت ہی بگڑ گئی۔ خاصا تگڑا جوان تھا پر نہ جانے کیا ہوا کہ بس ایک دو برس میں ہی سچ مچ کا سائیں بن گیا۔ یعنی ناک سے رینٹھ بہنے لگا اور چپ چپ رہنے لگا۔ سر پہلے ہی چھوٹا تھا پر اب کچھ اور بھی چھوٹا ہو گیا اور منہ سے ہر وقت لعاب سا نکلنے لگا۔ پہلے پہل ماں کو اپنے بچے کی اس تبدیلی پر بہت صدمہ ہوا مگر جب اس نے دیکھا کہ اس کی ناک سے رینٹھ اور منہ سے لعاب بہتے ہی گاؤں کے لوگوں نے اس سے غیب کی باتیں پوچھنا شروع کردی ہیں اور اس کی ہر جگہ خوب آؤ بھگت کی جاتی ہے تو اسے ڈھارس ہُوئی کہ چلو یوں بھی تو کما ہی لے گا۔ کمانا ومانا کیا تھا۔ عبدالغفار جس کو اب کبوتروں والا سائیں کہتے تھے، گاؤں میں پھرپھرا کر آٹا چاول اکٹھا کرلیا کرتا تھا، وہ کبھی اس لیے کہ اس کی ماں نے اس کے گلے میں ایک جھولی لٹکا دی تھی، جس میں لوگ کچھ نہ کچھ ڈال دیا کرتے تھے۔ کبوتروں والا سائیں اسے اس لیے کہا جاتا تھا کہ اسے کبوتروں سے بہت پیار تھا۔ تکیئے میں جتنے کبوتر تھے ان کی دیکھ بھال ابو پہلوان سے زیادہ یہی کیا کرتا تھا۔ اس وقت وہ سامنے کوٹھڑی میں ایک ٹُوٹی ہُوئی کھاٹ پر اپنے باپ کا میلا کچیلا لحاف اوڑھے سورہا تھا۔ باہر اس کی ماں آگ سُلگا رہی تھی۔ چونکہ سردیاں اپنے جوبن پر تھیں اس لیے گاؤں ابھی تک رات اور صبح کے دھوئیں میں لپٹا ہوا تھا۔ یوں تو گاؤں میں سب لوگ بیدار تھے اور اپنے کام دھندوں میں مصروف تھے مگر تکیہ جو کہ گاؤں سے فاصلہ پر تھا ابھی تک آباد نہ ہوا تھا، البتہ دُور کونے میں مائی جیواں کی بکری زور زور سے ممیا رہی تھی۔ مائی جیواں آگ سُلگا کر بکری کے لیے چارہ تیار کرنے ہی لگی تھی کہ اسے اپنے پیچھے آہٹ سُنائی دی۔ مڑ کر دیکھا تو اسے ایک اجنبی سر پر ٹھاٹا اور موٹا سا کمبل اوڑھے نظر آیا۔ پگڑی کے ایک پلو سے اس آدمی نے اپنا چہرہ آنکھوں تک چھپا رکھا تھا۔ جب اس نے موٹی آواز میں

’’مائی جیواں السلام علیکم‘‘

کہا تو پگڑی کا کھردرا کپڑا اس کے منہ پر تین چار مرتبہ سکڑا اور پھیلا۔ مائی جیواں نے چارہ بکری کے آگے رکھ دیا اور اجنبی کو پہچاننے کی کوشش کیے بغیر کہا

’’وعلیکم السلام۔ آؤ بھائی بیٹھو۔ آگ تاپو۔ ‘‘

مائی جیواں کمر پر ہاتھ رکھ کر اس گڑھے کی طرف بڑھی جہاں ہر روز آگ سلگتی رہتی تھی۔ اجنبی اور وہ دونوں پاس پاس بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر ہاتھ تاپ کر اس آدمی نے مائی جیواں سے کہا۔

’’ماں۔ اللہ بخشے گاماں سائیں مجھے باپ کی طرح چاہتا تھا۔ اس کے مرنے کی خبر ملی تو مجھے بہت صدمہ ہوا۔ مجھے آسیب ہو گیا تھا، قبرستان کا جن ایسا چمٹا تھا کہ اللہ کی پناہ، گاما سائیں کے ایک ہی تعویذ سے یہ کالی بلا دُور ہو گئی۔ ‘‘

مائی جیواں خاموشی سے اجنبی کی باتیں سنتی رہی جو کہ اس کے شوہر کا بہت ہی معتقد نظر آتا تھا۔ اس نے اِدھر اُدھر کی اوربہت سی باتیں کرنے کے بعد بڑھیا سے کہا۔

’’میں بارہ کوس سے چل کر آیا ہوں، ایک خاص بات کہنے کے لیے۔ اجنبی نے رازداری کے انداز میں اپنے چاروں طرف دیکھا کہ اُس کی بات کوئی اور تو نہیں سُن رہا اور بھنچے ہوئے لہجہ میں کہنے لگا۔

’’میں سُندر ڈاکو کے گروہ کا آدمی ہُوں۔ پرسوں رات ہم لوگ اس گاؤں پر ڈاکہ مارنے والے ہیں۔ خون خرابہ ضرور ہو گا، اس لیے میں تم سے یہ کہنے آیا ہوں کہ اپنے لڑکوں کو دُور ہی رکھنا۔ میں نے سُنا ہے کہ گاما سائیں مرحوم نے اپنے پیچھے دو لڑکے چھوڑے ہیں۔ جو ان آدمیوں کا لہو ہے بابا، ایسا نہ ہو کہ جوش مار اٹھے اور لینے کے دینے پڑ جائیں۔ تم ان کو پرسوں گاؤں سے کہیں باہر بھیج دو تو ٹھیک رہے گا۔ بس مجھے یہی کہنا تھا۔ میں نے اپنا حق ادا کردیا ہے۔ السلام علیکم۔ ‘‘

اجنبی اپنے ہاتھوں کو آگ کے الاؤ پر زور زور سے مل کر اُٹھا اور جس راستے سے آیا تھا اسی راستے سے باہر چلا گیا۔ سُندر جاٹ بہت بڑا ڈاکو تھا۔ اس کی دہشت اتنی تھی کہ مائیں اپنے بچوں کو اُسی کا نام لے کر ڈرایا کرتی تھیں۔ بے شمار گیت اسکی بہادری اور بیباکی کے گاؤں کی جوان لڑکیوں کو یاد تھے۔ اس کا نام سُن کر بہت سی کنواریوں کے دل دھڑکنے لگتے تھے۔ سُندر جاٹ کو بہت کم لوگوں نے دیکھا تھا مگر جب چوپال میں لوگ جمع ہوتے تھے تو ہر شخص اس سے اپنی اچانک ملاقات کے من گھڑت قصے سُنانے میں ایک خاص لذت محسوس کرتا تھا۔ اس کے قدوقامت اور ڈیل ڈول کے بارے میں مختلف بیان تھے۔ بعض کہتے تھے کہ وہ بہت قد آور جوان ہے، بڑی بڑی مونچھوں والا۔ ان مونچھوں کے بالوں کے متعلق یہ مشہور تھا کہ وہ دو بڑے بڑے لیموں ان کی مدد سے اُٹھا سکتا ہے۔ بعض لوگوں کا یہ بیان تھا کہ اس کا قد معمولی ہے مگر بدن اس قدر گٹھا ہوا ہے کہ گینڈے کا بھی نہ ہو گا۔ بہرحال سب متفقہ طور پر اسکی طاقت اور بیباکی کے مُعترف تھے۔ جب مائی جیواں نے یہ سنا کہ سُندر جاٹ انکے گاؤں پر ڈاکہ ڈالنے کے لیے آرہا ہے تو اسکے آئے اوسان خطا ہو گئے اور وہ اس اجنبی کے سلام کا جواب تک نہ دے سکی اور نہ اس کا شکریہ ادا کرسکی۔ مائی جیواں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ سُندر جاٹ کا ڈاکہ کیا معنی رکھتا ہے۔ پچھلی دفعہ جب اس نے ساتھ والے گاؤں پر حملہ کیا تھا تو سکھی مہاجن کی ساری جمع پونجی غائب ہو گئی تھی اور گاؤں کی سب سے سُندر اور چنچل چھوکری بھی ایسی گُم ہوئی تھی کہ اب تک اس کا پتہ نہیں ملتا تھا۔ یہ بلا اب ان کے گاؤں پر نازل ہونے والی تھی اور اس کا علم سوائے مائی جیواں کے گاؤں میں کسی اور کو نہ تھا۔ مائی جیواں نے سوچا کہ وہ اس آنے والے بھونچال کی خبر کس کس کو دے۔ چوہدری کے گھر خبر کردے۔ لیکن نہیں وہ تو بڑے کمینے لوگ تھے۔ پچھلے دنوں اس نے تھوڑا سا ساگ ان سے مانگا تھا تو انھوں نے انکار کردیا تھا۔ گھسیٹا رام حلوائی کو متنبہ کردے۔ نہیں، وہ بھی ٹھیک آدمی نہیں تھا۔ وہ دیر تک ان ہی خیالات میں غرق رہی۔ گاؤں کے سارے آدمی وہ ایک ایک کرکے اپنے دماغ میں لائی اور ان میں سے کسی ایک کو بھی اس نے مہربانی کے قابل نہ سمجھا۔ اس کے علاوہ اس نے سوچا اگر اس نے کسی کو ہمدردی کے طور پر اس راز سے آگاہ کردیا تو وہ کسی اور پر مہربانی کرے گا اور یوں سارے گاؤں والوں کو پتہ چل جائے گا جس کا نتیجہ اچھا نہیں ہو گا۔ آخر میں وہ یہ فیصلہ کرکے اٹھی کہ اپنی ساری جمع پونجی نکال کر وہ سبز رنگ کی غلاف چڑھی قبر کے سرہانے گاڑ دے گی اور رحمان کو پاس والے گاؤں میں بھیج دے گی۔ جب وہ سامنے والی کوٹھڑی کی طرف بڑھی تو دہلیز میں اسے عبدالغفار یعنی کبوتروں والاسائیں کھڑا نظر آیا۔ ماں کو دیکھ کر وہ ہنسا۔ اس کی یہ ہنسی آج خلافِ معمول معنی خیز تھی۔ مائی جیواں کو اس کی آنکھوں میں سنجیدگی اور متانت کی جھلک بھی نظر آئی جو کہ ہوشمندی کی نشانی ہے۔ جب وہ کوٹھڑی کے اندر جانے لگی تو عبدالغفار نے پوچھا۔

’’ماں، یہ صبح سویرے کون آدمی آیا تھا؟‘‘

عبدالغفار اس قسم کے سوال عام طور پر پوچھا کرتا تھا، اس لیے اس کی ماں جواب دیئے بغیر اندر چلی گئی اور اپنے چھوٹے لڑکے کو جگانے لگی۔

’’اے رحمان، اے رحمان اُٹھ اُٹھ۔ ‘‘

بازو جھنجھوڑ کر مائی جیواں نے اپنے چھوٹے لڑکے رحمان کو جگایا اور وہ جب آنکھیں مل کر اٹھ بیٹھا اور اچھی طرح ہوش آگیا تو اس کی ماں نے اس کو ساری بات سنا دی۔ رحمان کے تو اوسان خطا ہو گئے۔ وہ بہت ڈرپوک تھا گو اس کی عمر اس وقت بائیس برس کی تھی اور کافی طاقتور جوان تھا مگر اُس میں ہمت اور شجاعت نام تک کو نہ تھی۔ سُندر جاٹ!۔ اتنا بڑا ڈاکو، جس کے متعلق مشہور تھا کہ وہ تھوک پھینکتا تھا تو پورے بیس گز کے فاصلے پر جا کر گرتا تھا، پرسوں ڈاکہ ڈالنے اور لوٹ مار کرنے کے لیے آرہا تھا۔ وہ فوراً اپنی ماں کے مشورے پر راضی ہو گیا بلکہ یوں کہیے کہ وہ اسی وقت گاؤں چھوڑنے کی تیاریاں کرنے لگا۔ رحمان کو نیتی چمارن یعنی عنایت سے محبت تھی جو کہ گاؤں کی ایک بیباک شوخ اور چنچل لڑکی تھی۔ گاؤں کے سب جوان لڑکے شباب کی یہ پوٹلی حاصل کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے مگر وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتی تھی۔ بڑے بڑے ہوشیار لڑکوں کو وہ باتوں باتوں میں اڑا دیتی تھی۔ چوہدری دین محمد کے لڑکے فضل دین کو کلائی پکڑنے میں کمال حاصل تھا۔ اس فن کے بڑے بڑے ماہر دُور دُور سے اس کو نیچا دکھانے کے لیے آتے تھے مگر اس کی کلائی کسی سے بھی نہ مڑی تھی۔ وہ گاؤں میں اکڑ اکڑ کر چلتا تھا مگر اس کی یہ ساری اکڑفوں نیتی نے ایک ہی دن میں غائب کردی جب اس نے دھان کے کھیت میں اس سے کہا۔

’’فجے، گنڈا سنگھ کی کلائی مروڑ کر تُو اپنے من میں یہ مت سمجھ کہ بس اب تیرے مقابلہ میں کوئی آدمی نہیں رہا۔ آمیرے سامنے بیٹھ، میری کلائی پکڑ، ان دو انگلیوں کی ایک ہی ٹھمکی سے تیرے دونوں ہاتھ نہ چُھڑا دُوں تو نیتی نام نہیں۔ ‘‘

فضل دین اس کو محبت کی نگاہوں سے دیکھتا تھا اور اسے یقین تھا کہ اسکی طاقت اور شہزوری کے رُعب اور دبدبے میں آکر وہ خودبخود ایک روز رام ہو جائیگی۔ لیکن جب اس نے کئی آدمیوں کے سامنے اس کو مقابلے کی دعوت دی تو وہ پسینہ پسینہ ہو گیا۔ اگر وہ انکارکرتا ہے تو نیتی اور بھی سر پر چڑھ جاتی ہے اور اگر وہ اسکی دعوت قبول کرتا ہے تو لوگ یہی کہیں گے۔ عورت ذات سے مقابلہ کرتے شرم تو نہیں آئی مردود کو۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کرے۔ چنانچہ اس نے نیتی کی دعوت قبول کرلی تھی۔ اور جیسا کہ لوگوں کا بیان ہے اس نے جب نیتی کی گدرائی ہوئی کلائی اپنے ہاتھوں میں لی تو وہ سارے کا سارا کانپ رہا تھا۔ نیتی کی موٹی موٹی آنکھیں اس کی آنکھوں میں دھنس گئیں، ایک نعرہ بلند ہوا اور نیتی کی کلائی فضل کی گرفت سے آزاد ہو گئی۔ اس دن سے لیکر اب تک فضل نے پھر کبھی کسی کی کلائی نہیں پکڑی۔ ہاں، تو اس نیتی سے رحمان کو محبت تھی، جیسا کہ وہ آپ ڈرپوک تھا اسی طرح اس کا پریم بھی ڈرپوک تھا۔ دُور سے دیکھ کروہ اپنے دل کی ہوّس پوری کرتا تھا اور جب کبھی اس کے پاس ہوتی تو اس کو اتنی جرأت نہیں ہوتی تھی کہ حرفِ مدعا زبان پر لائے۔ مگر نیتی سب کچھ جانتی تھی۔ وہ کیا کچھ نہیں جانتی تھی۔ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ یہ چھوکرا جو درختوں کے تنوں کے ساتھ پیٹھ ٹیکے کھڑا رہتا ہے اس کے عشق میں گرفتار ہے، اس کے عشق میں کون گرفتار نہیں تھا؟ سب اس سے محبت کرتے تھے۔ اس قسم کی محبت جو کہ بیریوں کے بیرپکنے پر گاؤں کے جوان لڑکے اپنی رگوں کے تناؤ کے اندر محسوس کیا کرتے ہیں مگر وہ ابھی تک کسی کی محبت میں گرفتار نہیں ہوئی تھی۔ محبت کرنے کی خواہش البتہ اسکے دل میں اس قدر موجود تھی کہ بالکل اس شرابی کے مانند معلوم ہوتی تھی جس کے متعلق ڈر رہا کرتا ہے کہ اب گِرا اور اب گِرا۔ وہ بے خبری کے عالم میں ایک بہت اونچی چٹان کی چوٹی پر پہنچ چکی تھی اور اب تمام گاؤں والے اس کی افتاد کے منتظر تھے جو کہ یقینی تھی۔ رحمان کو بھی اس اُفتاد کا یقین تھا مگر اس کا ڈرپوک دل ہمیشہ اسے ڈھارس دیا کرتا تھا کہ نہیں، نیتی آخر تیری ہی باندی بنے گی اور وہ یوں خوش ہوجایا کرتا تھا۔ جب رحمان دس کوس طے کرکے دوسرے گاؤں میں پہنچنے کے لیے تیار ہو کر تکیئے سے باہر نکلا تو اُسے راستے میں نیتی کا خیال آیا مگر اس وقت اُس نے یہ نہ سوچا کہ سُندر جاٹ دھاوا بولنے والا ہے۔ وہ دراصل نیتی کے تصور میں اس قدر مگن تھا اور اکیلے میں اس کے ساتھ من ہی من میں اتنے زوروں سے پیار محبت کررہا تھا کہ اسے کسی اور بات کا خیال ہی نہ آیا۔ البتہ جب وہ گاؤں سے پانچ کوس آگے نکل گیا تو ایکا ایکی اس نے سوچا کہ نیتی کو تو بتا دینا چاہیے تھا کہ سندر جاٹ آرہا ہے۔ لیکن اب واپس کون جاتا۔ عبدالغفار یعنی کبوتروں والا سائیں تکیے سے باہر نکلا۔ اس کے منہ سے لعاب نکل رہا تھا جو کہ میلے کُرتے پر گر کر دیر تک گلیسرین کی طرح چمکتا رہتا تھا۔ تکیے سے نکل کر سیدھا کھیتوں کا رخ کیا کرتا تھا اور سارا دن وہیں گزار دیتا تھا۔ شام کو جب ڈھورڈنگر واپس گاؤں کو آتے تو ان کے چلنے سے جو دھول اُڑتی ہے اس کے پیچھے کبھی کبھی غفار کی شکل نظر آجاتی تھی۔ گاؤں اس کو پسند نہیں تھا۔ اجاڑ اور سنسان جگہوں سے اسے غیر محسوس طور پر محبت تھی یہاں بھی لوگ اس کا پیچھا نہ چھوڑتے تھے اور اس سے طرح طرح کے سوال پوچھتے تھے۔ جب برسات میں دیر ہو جاتی تو قریب قریب سب کسان اس سے درخواست کرتے تھے کہ وہ پانی بھرے بادلوں کیلیے دعا مانگے اور گاؤں کے عشق پیشہ جوان اس سے اپنے دل کا حال بیان کرتے اور پوچھتے کہ وہ کب اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے، نوجوان چھوکریاں بھی چپکے چپکے دھڑکتے ہوئے دلوں سے اس کے سامنے اپنی محبت کا اعتراف کرتی تھیں اور یہ جاننا چاہتی تھیں کہ ان کے

’’ماہیا‘‘

کا دل کیسا ہے۔ عبدالغفار ان سوالیوں کو اوٹ پٹانگ جواب دیا کرتا تھا اس لیے کہ اسے غیب کی باتیں کہاں معلوم تھیں، لیکن لوگ جو اس کے پاس سوال لیکر آتے تھے اس کی بے ربط باتوں میں اپنا مطلب ڈھونڈ لیا کرتے تھے۔ عبدالغفار مختلف کھیتوں میں سے ہوتا ہوا اس کنویں کے پاس پہنچ گیا جو کہ ایک زمانے سے بیکار پڑا تھا۔ اس کنویں کی حالت بہت ابتر تھی۔ اس بوڑھے برگد کے پتے جو کہ سالہا سال سے اس کے پہلو میں کھڑا تھا اس قدر اس میں جمع ہو گئے تھے کہ اب پانی نظر ہی نہ آتا تھا اور ایسا معلوم ہوتا کہ بہت سی مکڑیوں نے مل کر پانی کی سطح پر موٹا سا جالا بُن دیا ہے۔ اس کنویں کی ٹوٹی ہوئی منڈیر پر غبدالغفار بیٹھ گیا اور دوسروں کی اُداس فضا میں اس نے اپنے وجود سے اور بھی اداسی پیدا کردی۔ دفعتاً اُڑتی ہوئی چیلوں کی اُداس چیخوں کو عقب میں چھوڑتی ہوئی ایک بلند آواز اُٹھی اور بوڑھے برگد کی شاخوں میں ایک کپکپاہٹ سی دوڑ گئی۔ نیتی گا رہی تھی ؂ ماہی مرے نے باگ لوایا چمپا، میوا خوب کِھلایا اَسی تے لوایاں کھٹیاں وے راتیں سون نہ دیندیاں اکھیاں وے اس گیت کا مطلب یہ تھا کہ میرے ماہیا یعنی میرے چاہنے والے نے ایک باغ لگایا ہے، اس میں ہر طرح کے پھول اُگائے ہیں، چمپا، میوا وغیرہ کھلائے ہیں۔ اور ہم نے تو صرف نارنگیاں لگائی ہیں۔ رات کو آنکھیں سونے نہیں دیتیں۔ کتنی انکساری برتی گئی ہے۔ معشوق عاشق کے لگائے ہوئے باغ کی تعریف کرتا ہے، لیکن وہ اپنی جوانی کے باغ کی طرف نہایت انکسارانہ طور پر اشارہ کرتا ہے جس میں حقیر نارنگیاں لگی ہیں اور پھر شب جوابی کا گلہ کِس خُوبی سے کیا گیا ہے۔ گو عبدالغفار میں نازک جذبات بالکل نہیں تھے پھر بھی نیتی کی جوان آواز نے اس کو چونکا دیا اور وہ اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ اس نے پہچان لیا تھا کہ یہ آواز نیتی کی ہے۔ گاتی گاتی نیتی کنویں کی طرف آنکلی۔ غفار کو دیکھ کروہ دوڑی ہُوئی اس کے پاس آئی اور کہنے لگی۔

’’اوہ، غفار سائیں۔ تم۔ اوہ، مجھے تم سے کتنی باتیں پوچھنا ہیں۔ اور اس وقت یہاں تمہارے اور میرے سوا اور کوئی بھی نہیں۔ دیکھو میں تمہارا منہ میٹھا کراؤں گی اگر تم نے میرے دل کی بات بُوجھ لی اور۔ لیکن تم تو سب کچھ جانتے ہو۔ اللہ والوں سے کسی کے دل کا حال چُھپا تھوڑی رہتا ہے۔ ‘‘

وہ اُس کے پاس زمین پر بیٹھ گئی اور اس کے میلے کرتے پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ خلافِ معمول کبوتروں والا سائیں مسکرایا مگر نیتی اس کی طرف دیکھ نہیں رہی تھی، اس کی نگاہیں گاڑہے کے تانے بانے پربغیر کسی مطلب کے تیر رہی تھیں۔ کُھردرے کپڑے پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے اس نے گردن اُٹھائی اور آہوں میں کہنا شروع کیا۔

’’غفار سائیں تم اللہ میاں سے محبت کرتے ہو اور میں۔ میں ایک آدمی سے محبت کرتی ہُوں۔ تم میرے دل کا حال کیا سمجھو گے!۔ اللہ میاں کی محبت اور اس کے بندے کی محبت ایک جیسی تو ہو نہیں سکتی۔ کیوں غفار سائیں۔ ارے تم بولتے کیوں نہیں۔ کچھ بولو۔ کچھ کہو۔ اچھا تو میں ہی بولے جاؤں گی۔ تم نہیں جانتے کہ آج میں کتنی دیر بول سکتی ہوں۔ تم سُنتے سُنتے تھک جاؤ گے پر میں نہیں تھکوں گی۔ ‘‘

یہ کہتے کہتے وہ خاموش ہو گئی اور اس کی سنجیدگی زیادہ بڑھ گئی۔ اپنے من میں غوطہ لگانے کے بعد جب وہ ابھری تو اس نے ایکا ایکی عبدالغفار سے پوچھا۔

’’سائیں۔ میں کب تھکوں گی؟‘‘

عبدالغفار کے منہ سے لعاب نکلنا بند ہو گیا۔ اس نے کنویں کے اندر جُھک کر دیکھتے ہُوئے جواب دیا۔

’’بہت جلد۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ اُٹھ کھڑا ہُوا۔ اس پر نیتی نے اس کے کرتے کا دامن پکڑ لیا اور گھبرا کر پوچھا۔

’’کب؟۔ کب؟۔ سائیں کب؟‘‘

عبدالغفار نے اس کاکوئی جواب نہ دیا اور ببول کے جُھنڈ کی طرف بڑھنا شروع کردیا۔ نیتی کچھ دیر کنویں کے پاس سوچتی رہی پھر تیز قدموں سے جدھر سائیں گیا تھا اُدھر چل دی۔ وہ رات جس میں سُندر جاٹ گاؤں پر ڈاکہ ڈالنے کے لیے آرہا تھا۔ مائی جیواں نے آنکھوں میں کاٹی۔ ساری رات وہ اپنی کھاٹ پر لحاف اوڑھے جاگتی رہی۔ وہ بالکل اکیلی تھی۔ رحمان کو اس نے دوسرے گاؤں بھیج دیا اور عبدالغفار نہ جانے کہاں سو گیا تھا۔ ابو پہلوان کبھی کبھی تکیے میں آگ تاپتا تاپتا وہیں الاؤ کے پاس سو جایا کرتا تھا مگر وہ صبح ہی سے دکھائی نہیں دیا تھا، چنانچہ کتوبروں کو دانہ مائی جیواں ہی نے کِھلایا تھا۔ تکیہ گاؤں کے اس سِرے پرواقع تھا جہاں سے لوگ گاؤں کے اندر داخل ہوتے تھے۔ مائی جیواں ساری رات جاگتی رہی مگر اس کو ہلکی سی آہٹ بھی سُنائی نہ دی۔ جب رات گزر گئی اور گاؤں کے مرغوں نے اذانیں دینا شروع کردیں تو وہ سُندر جاٹ کی بابت سوچتی سوچتی سو گئی۔ چونکہ رات کو وہ بالکل نہ سوئی تھی اس لیے صبح بہت دیر کے بعد جاگی۔ کوٹھڑی سے نکل کر جب وہ باہر آئی تو اس نے دیکھا کہ ابو پہلوان کبوتروں کو دانہ دے رہا ہے اور دھوپ سارے تکیے میں پھیلی ہوئی ہے۔ اس نے باہر نکلتے ہی اس سے کہا۔

’’ساری رات مجھے نیند نہیں آئی۔ یہ موا بڑھاپا بڑا تنگ کررہا ہے۔ صبح سوئی ہوں اور اب اُٹھی ہوں۔ ہاں تم سناؤ کل کہاں رہے ہو؟‘‘

ابو نے جواب دیا۔

’’گاؤں میں۔ ‘‘

اس پر مائی جیواں نے کہا۔

’’کوئی تازہ خبر سناؤ۔ ‘‘

ابو نے جھولی کے سب دانے زمین پر گرا کر اور جھپٹ کر ایک کبوتر کو بڑی صفائی سے اپنے ہاتھ میں دبوچتے ہوئے کہا۔

’’آج صبح چوپال پر نتھا سنگھ کہہ رہا تھا کہ گام چمار کی وہ لونڈیا۔ کیا نام ہے اس کا؟۔ ہاں وہ نیتی کہیں بھاگ گئی ہے؟۔ میں تو کہتا ہوں اچھا ہوا۔ حرامزادی نے سارا گاؤں سر پر اٹھا رکھا تھا۔ ‘‘

’’کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہے یا کوئی اُٹھا کر لے گیا ہے؟‘‘

’’جانے میری بلا۔ لیکن میرے خیال میں تو وہ خود ہی کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ ‘‘

مائی جیواں کو اس گفتگو سے اطمینان نہ ہوا۔ سُندر جاٹ نے ڈاکہ نہیں ڈالا تھا پر ایک چھوکری تو غائب ہو گئی تھی۔ اب وہ چاہتی تھی کہ کسی نہ کسی طرح نیتی کا غائب ہو جانا سُندر جاٹ سے متعلق ہو جائے۔ چنانچہ وہ ان تمام لوگوں سے نیتی کے بارے میں پوچھتی رہی جو کہ تکیے میں آتے جاتے رہے لیکن جو کچھ ابو نے بتایا تھا اس سے زیادہ اسے کوئی بھی نہ بتا سکا۔ شام کورحمان لوٹ آیا۔ اس نے آتے ہی ماں سے سُندر جاٹ کے ڈاکہ کے متعلق پوچھا۔ اس پر مائی جیواں نے کہا۔

’’سندر جاٹ تو نہیں آیا بیٹا پر نیتی کہیں غائب ہو گئی ہے۔ ایسی کہ کچھ پتہ ہی نہیں چلتا۔ ‘‘

رحمان کو ایسا محسوس ہوا کہ اس کی ٹانگوں میں دس کوس اور چلنے کی تھکاوٹ پیدا ہو گئی ہے۔ وہ اپنی ماں کے پاس بیٹھ گیا، اس کا چہرہ خوفناک طور پر زرد تھا۔ ایک دم یہ تبدیلی دیکھ کر مائی جیواں نے تشویشناک لہجہ میں اس سے پوچھا۔

’’کیا ہوا بیٹا۔ ‘‘

رحمان نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری اور کہا۔

’’کچھ نہیں ماں۔ تھک گیا ہوں۔ ‘‘

’’اور نیتی کل مجھ سے پوچھتی تھی، میں کب تھکوں گی؟‘‘

رحمان نے پلٹ کر دیکھا تو اس کا بھائی عبدالغفار آستین سے اپنے منہ کا لعاب پونچھ رہا تھا۔ رحمان نے اس کی طرف گھور کردیکھا اور پوچھا

’’کیا کہا تھا اس نے تجھ سے؟‘‘

عبدالغفار الاؤ کے پاس بیٹھ گیا۔

’’کہتی تھی کہ میں تھکتی ہی نہیں۔ پر اب وہ تھک جائے گی۔ ‘‘

رحمان نے تیزی سے پوچھا۔

’’کیسے؟‘‘

غفار سائیں کے چہرے پر ایک بے معنی سی مسکراہٹ پیدا ہُوئی۔

’’مجھے کیا معلوم؟۔ سُندر جاٹ جانے اور وہ جانے۔ ‘‘

یہ سُن کر رحمان کے چہرے پر اور زیادہ زردی چھا گئی اور مائی جیواں کی جُھریاں زیادہ گہرائی اختیار کرگئیں۔

سعادت حسن منٹو
]]>
https://hybridlearning.pk/2018/12/04/%da%a9%d8%a8%d9%88%d8%aa%d8%b1%d9%88%da%ba-%d9%88%d8%a7%d9%84%d8%a7-%d8%b3%d8%a7%d8%a6%db%8c%da%ba/feed/ 0
کالی شلوار https://hybridlearning.pk/2018/12/04/%da%a9%d8%a7%d9%84%db%8c-%d8%b4%d9%84%d9%88%d8%a7%d8%b1/ https://hybridlearning.pk/2018/12/04/%da%a9%d8%a7%d9%84%db%8c-%d8%b4%d9%84%d9%88%d8%a7%d8%b1/#respond Tue, 04 Dec 2018 06:44:45 +0000 https://hybridlearning.pk/2018/12/04/%da%a9%d8%a7%d9%84%db%8c-%d8%b4%d9%84%d9%88%d8%a7%d8%b1/ کالی شلوار دہلی آنے سے پہلے وہ ابنالہ چھاؤنی میں تھی جہاں کئی گورے اس کے گاہک تھے۔ ان گوروں سے ملنے جلنے کے باعث […]

]]>

کالی شلوار

دہلی آنے سے پہلے وہ ابنالہ چھاؤنی میں تھی جہاں کئی گورے اس کے گاہک تھے۔ ان گوروں سے ملنے جلنے کے باعث وہ انگریزی کے دس پندرہ جملے سیکھ گئی تھی، ان کو وہ عام گفتگو میں استعمال نہیں کرتی تھی لیکن جب وہ دہلی میں آئی اوراس کا کاروبار نہ چلا تو ایک روز اس نے اپنی پڑوسن طمنچہ جان سے کہا۔

’’دِ س لیف۔ ویری بیڈ۔ ‘‘

یعنی یہ زندگی بہت بُری ہے جبکہ کھانے ہی کو نہیں ملتا۔ ابنالہ چھاؤنی میں اس کا دھندا بہت اچھی طرح چلتا تھا۔ چھاؤنی کے گورے شراب پی کر اس کے پاس آجاتے تھے اور وہ تین چار گھنٹوں ہی میں آٹھ دس گوروں کو نمٹا کر بیس تیس روپے پیدا کر لیا کرتی تھی۔ یہ گورے، اس کے ہم وطنوں کے مقابلے میں بہت اچھے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایسی زبان بولتے تھے جس کا مطلب سلطانہ کی سمجھ میں نہیں آتا تھا مگر ان کی زبان سے یہ لاعلمی اس کے حق میں بہت اچھی ثابت ہوتی تھی۔ اگر وہ اس سے کچھ رعایت چاہتے تو وہ سر ہلا کرکہہ دیا

کرتی تھی۔

’’صاحب، ہماری سمجھ میں تمہاری بات نہیں آتا۔ ‘‘

اور اگر وہ اس سے ضرورت سے زیادہ چھیڑ چھاڑ کرتے تو وہ ان کو اپنی زبان میں گالیاں دینا شروع کردیتی تھی۔ وہ حیرت میں اس کے منہ کی طرف دیکھتے تو وہ ان سے کہتی

’’صاحب، تم ایک دم اُلو کا پٹھا ہے۔ حرامزادہ ہے۔ سمجھا۔ ‘‘

یہ کہتے وقت وہ اپنے لہجہ میں سختی پیدا نہ کرتی بلکہ بڑے پیار کے ساتھ اُن سے باتیں کرتی۔ یہ گورے ہنس دیتے اور ہنستے وقت وہ سلطانہ کو بالکل الو کے پٹھے دکھائی دیتے۔ مگر یہاں دہلی میں وہ جب سے آئی تھی ایک گورا بھی اس کے یہاں نہیں آیا تھا۔ تین مہینے اس کو ہندوستان کے اس شہر میں رہتے ہو گئے تھے جہاں اس نے سنا تھا کہ بڑے لاٹ صاحب رہتے ہیں، جو گرمیوں میں شملے چلے جاتے ہیں، مگر صرف چھ آدمی اس کے پاس آئے تھے۔ صرف چھ، یعنی مہینے میں دو اور ان چھ گاہکوں سے اس نے خدا جھوٹ نہ بلوائے تو ساڑھے اٹھارہ روپے وصول کیے تھے۔ تین ر وپے سے زیادہ پرکوئی مانتا ہی نہیں تھا۔ سلطانہ نے ان میں سے پانچ آدمیوں کو اپنا ریٹ دس روپے بتایا تھا مگر تعجب کی بات ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے یہی کہا۔

’’بھئی ہم تین روپے سے ایک کوڑی زیادہ نہ دیں گے۔ ‘‘

نہ جانے کیا بات تھی کہ ان میں سے ہر ایک نے اسے صرف تین روپے کے قابل سمجھا۔ چنانچہ جب چھٹا آیا تو اس نے خود اس سے کہا۔

’’دیکھو، میں تین روپے ایک ٹیم کے لوں

گی۔ اس سے ایک دھیلا تم کم کہو تو میں نہ لوں گی۔ اب تمہاری مرضی ہو تو رہو ورنہ جاؤ۔ ‘‘

چھٹے آدمی نے یہ بات سن کر تکرار نہ کی اور اس کے ہاں ٹھہر گیا۔ جب دوسرے کمرے میں دروازے وروازے بند کرکے وہ اپنا کوٹ اتارنے لگا تو سلطانہ نے کہا۔

’’لائیے ایک روپیہ دودھ کا۔ ‘‘

اس نے ایک روپیہ تو نہ دیا لیکن نئے بادشاہ کی چمکتی ہوئی اٹھنی جیب میں سے نکال کر اس کو دے دی اور سلطانہ نے بھی چپکے سے لے لی کہ چلو جو آیا ہے غنیمت ہے۔ ساڑھے اٹھارہ روپے تین مہینوں میں۔ بیس روپے ماہوار تو اس کوٹھے کا کرایہ تھا جس کو مالک مکان انگریزی زبان میں فلیٹ کہتا تھا۔ اس فلیٹ میں ایسا پاخانہ تھا جس میں زنجیر کھینچنے سے ساری گندگی پانی کے زور سے ایک دم نیچے نل میں غائب ہو جاتی تھی اور بڑا شور ہوتا تھا۔ شروع شروع میں تو اس شور نے اسے بہت ڈرایا تھا۔ پہلے دن جب وہ رفع حاجت کے لیے اس پاخانہ میں گئی تو اس کے لیے کمر میں شدت کا درد ہورہا تھا۔ فارغ ہو کر جب اٹھنے لگی تو اس نے لٹکی ہوئی زنجیر کا سہارا لے لیا۔ اس زنجیرکو دیکھ کر اس نے خیال کیا چونکہ یہ مکان خاص ہم لوگوں کی رہائش کے لیے تیار کیے گئے ہیں یہ زنجیر اس لیے لگائی گئی ہے کہ اٹھتے وقت تکلیف نہ ہو اور سہارا مل جایا کرے مگر جونہی اس نے زنجیر پکڑ کر اٹھنا چاہا، اوپر کھٹ کھٹ سی ہُوئی اور پھر ایک دم پانی اس شور کے ساتھ باہر نکلا کہ ڈر کے مارے اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ خدا بخش دوسرے کمرے میں اپنا فوٹو گرافی کا سامان درست کررہا تھا اور ایک صاف بوتل میں ہائی ڈرو کونین ڈال رہا تھا کہ اس نے سلطانہ کی چیخ سنی۔ دوڑ کروہ باہر نکلا اور سلطانہ سے پوچھا۔

’’کیا ہوا؟۔ یہ چیخ تمہاری تھی؟‘‘

سلطانہ کا دل دھڑک رہا تھا۔ اس نے کہا۔

’’یہ موا پاخانہ ہے یا کیا ہے۔ بیچ میں یہ ریل گاڑیوں کی طرح زنجیر کیا لٹکا رکھی ہے۔ میری کمرمیں درد تھا۔ میں نے کہا چلو اس کا سہارا لے لوں گی، پر اس موئی زنجیر کو چھیڑنا تھا کہ وہ دھماکہ ہُوا کہ میں تم سے کیا کہوں۔ ‘‘

اس پر خدا بخش بہت ہنسا تھا اور اس نے سلطانہ کو اس پیخانے کی بابت سب کچھ بتا دیا تھا کہ یہ نئے فیش کا ہے جس میں زنجیر ہلانے سے سب گندگی نیچے زمین میں دھنس جاتی ہے۔ خدا بخش اور سلطانہ کا آپس میں کیسے سمبندھ ہُوا یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ خدا بخش راولپنڈی کا تھا۔ انٹرنٹس پاس کرنے کے بعد اس نے لاری چلانا سیکھا، چنانچہ چار برس تک وہ راولپنڈی اور کشمیر کے درمیان لاری چلانے کا کام کرتا رہا۔ اس کے بعد کشمیر میں اس کی دوستی ایک عورت سے ہو گئی۔ اس کو بھگا کر وہ لاہور لے آیا۔ لاہور میں چونکہ اس کو کوئی کام نہ ملا۔ اس لیے اس نے عورت کو پیشے بٹھا دیا۔ دو تین برس تک یہ سلسلہ جاری رہا اور وہ عورت کسی اور کے ساتھ بھاگ گئی۔ خدا بخش کو معلوم ہوا کہ وہ ابنالہ میں ہے۔ وہ اس کی تلاش میں ابنالہ آیا جہاں اس کو سلطانہ مل گئی۔ سلطانہ نے اس کو پسند کیا، چنانچہ دونوں کا سمبندھ ہو گیا۔ خدا بخش کے آنے سے ایک دم سلطانہ کا کاروبار چمک اٹھا۔ عورت چوں کہ ضعیف الاعتقاد تھی۔ اس لیے اس نے سمجھا کہ خدا بخش بڑا بھاگوان ہے جس کے آنے سے اتنی ترقی ہو گئی، چنانچہ اس خوش اعتقادی نے خدا بخش کی وقعت اس کی نظروں میں اور بھی بڑھا دی۔ خدا بخش آدمی محنتی تھا۔ سارا دن ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھنا پسند نہیں کرتا تھا۔ چنانچہ اس نے ایک فوٹو گرافرسے دوستی پیدا کی جو ریلوے اسٹیشن کے باہر منٹ کیمرے سے فوٹو کھینچا کرتا تھا۔ اس لیے اس نے فوٹو کھینچنا سیکھ لیا۔ پھر سلطانہ سے ساٹھ روپے لے کر کیمرہ بھی خرید لیا۔ آہستہ آہستہ ایک پردہ بنوایا، دو کرسیاں خریدیں اور فوٹو دھونے کا سب سامان لے کر اس نے علیحدہ اپنا کام شروع کردیا۔ کام چل نکلا، چنانچہ اس نے تھوڑی ہی دیر کے بعد اپنا اڈا ابنالے چھاؤنی میں قائم کردیا۔ یہاں وہ گوروں کے فوٹو کھینچتا رہتا۔ ایک مہینے کے اندر اندر اس کی چھاؤنی کے متعدد گوروں سے واقفیت ہو گئی، چنانچہ وہ سلطانہ کو وہیں لے گیا۔ یہاں چھاؤنی میں خدا بخش کے ذریعہ سے کئی گورے سلطانہ کے مستقل گاہک بن گئے اور اس کی آمدنی پہلے سے دوگنی ہو گئی۔ سلطانہ نے کانوں کے لیے بُندے خریدے۔ ساڑھے پانچ تولے کی آٹھ کنگنیاں بھی بنوالیں۔ دس پندرہ اچھی اچھی ساڑھیاں بھی جمع کرلیں، گھرمیں فرنیچر وغیرہ بھی آگیا۔ قصہ مختصر یہ کہ ابنالہ چھاؤنی میں وہ بڑی خوش حال تھی مگر ایکا ایکی نہ جانے خدا بخش کے دل میں کیا سمائی کہ اس نے دہلی جانے کی ٹھان لی۔ سطانہ انکار کیسے کرتی جبکہ خدا بخش کو اپنے لیے بہت مبارک خیال کرتی تھی۔ اس نے خوشی خوشی دہلی جانا قبول کرلیا۔ بلکہ اس نے یہ بھی سوچا

کہ اتنے بڑے شہر میں جہاں لاٹ صاحب رہتے ہیں اس کا دھندا اور بھی اچھا چلے گا۔ اپنی سہیلیوں سے وہ دہلی کی تعریف سُن چکی تھی۔ پھر وہاں حضرت نظام الدین اولیاء کی خانقاہ تھی۔ جس سے اسے بے حد عقیدت تھی، چنانچہ جلدی جلدی گھر کا بھاری سامان بیچ باچ کر وہ خدا بخش کے ساتھ دہلی آگئی۔ یہاں پہنچ کر خدا بخش نے بیس روپے ماہوار پر ایک چھوٹا سا فلیٹ لے لیا جس میں وہ دونوں رہنے لگے۔ ایک ہی قسم کے نئے مکانوں کی لمبی سی قطار سڑک کے ساتھ ساتھ چلی گئی تھی۔ میونسپل کمیٹی نے شہر کا یہ حصہ خاص کسبیوں کے لیے مقرر کردیا تھا تاکہ وہ شہر میں جگہ جگہ اپنے اڈے نہ بنائیں۔ نیچے دکانیں تھیں اور اوپر دومنزلہ رہائشی فلیٹ۔ چونکہ سب عمارتیں ایک ہی ڈیزائن کی تھیں اس لیے شروع شروع میں سلطانہ کو اپنا فلیٹ تلاش کرنے میں بہت دِقت محسوس ہوئی تھی پر جب نیچے لانڈری والے نے اپنا بورڈ گھر کی پیشانی پر لگا دیا تو اس کو ایک پکی نشانی مل گئی۔

’’یہاں میلے کپڑوں کی دھلائی کی جاتی ہے۔ ‘‘

یہ بورڈ پڑھتے ہی وہ اپنا فلیٹ تلاش کرلیا کرتی تھی۔ اسی طرح اس نے اور بہت سی نشانیاں قائم کرلی تھیں، مثلاً بڑے بڑے حروف میں جہاں

’’کوئلوں کی دوکان‘‘

لکھا تھا وہاں اس کی سہیلی ہیرا بائی رہتی تھی جو کبھی کبھی ریڈیو گھر میں گانے جایا کرتی تھی۔ جہاں

’’شرفا کے کھانے کا اعلیٰ انتظام ہے۔ ‘‘

لکھا تھا وہاں اس کی دوسری سہیلی مختار رہتی تھی۔ نواڑ کے کارخانہ کے اوپر انوری رہتی تھی جو اسی کارخانہ کے سیٹھ کے پاس ملازم تھی۔ چونکہ سیٹھ صاحب کو رات کے وقت اپنے کارخانہ کی دیکھ بھال کرنا ہوتی تھی اس لیے وہ انوری کے پاس ہی رہتے تھے۔ دوکان کھولتے ہی گاہک تھوڑے ہی آتے ہیں۔ چنانچہ جب ایک مہینے تک سلطانہ بیکار رہی تو اس نے یہی سوچ کر اپنے دل کو تسلی دی، پر جب دو مہینے گزر گئے اور کوئی آدمی اس کے کوٹھے پر نہ آیا تو اسے بہت تشویش ہوئی۔ اس نے خدا بخش سے کہا۔

’’کیا بات ہے خدا بخش، دو مہینے آج پورے ہو گئے ہیں ہمیں یہاں آئے ہوئے، کسی نے ادھر کا رخ بھی نہیں کیا۔ مانتی ہوں آج کل بازار بہت مندا ہے، پر اتنا مندا بھی تو نہیں کہ مہینے بھر میں کوئی شکل دیکھنے ہی میں نہ آئے۔ ‘‘

خدا بخش کو بھی یہ بات بہت عرصہ سے کھٹک رہی تھی مگر وہ خاموش تھا، پر جب سلطانہ نے خود بات چھیڑی تو اس نے کہا۔

’’میں کئی دنوں سے اس کی بابت سوچ رہا ہوں۔ ایک بات سمجھ میں آتی ہے، وہ یہ کہ جنگ کی وجہ سے لوگ باگ دوسرے دھندوں میں پڑ کر ادھر کا رستہ بھول گئے ہیں۔ یا پھر یہ ہو سکتا ہے کہ۔ ‘‘

وہ اس کے آگے کچھ کہنے ہی والا تھا کہ سیڑھیوں پر کسی کے چڑھنے کی آواز آئی۔ خدا بخش اور سلطانہ دونوں اس آواز کی طرف متوجہ ہوئے۔ تھوڑی دیر کے بعد دستک ہوئی۔ خدا بخش نے لپک کر دروازہ کھولا۔ ایک آدمی اندر داخل ہوا۔ یہ پہلا گاہک تھا جس سے تین روپے میں سودا طے ہوا۔ اس کے بعد پانچ اور آئے یعنی تین مہینے میں چھ، جن سے سلطانہ نے صرف ساڑھے اٹھارہ روپے وصول کیے۔ بیس روپے ماہوار تو فلیٹ کے کرایہ میں چلے جاتے تھے، پانی کا ٹیکس اور بجلی کا بل جدا تھا۔ اس کے علاوہ گھر کے دوسرے خرچ تھے۔ کھانا پینا، کپڑے لتے، دوا دارو اور آمدن کچھ بھی نہیں تھی۔ ساڑھے اٹھارہ روپے تین مہینے میں آئے تو

اسے آمدن تو نہیں کہہ سکتے۔ سلطانہ پریشان ہو گئی۔ ساڑھے پانچ تولے کی آٹھ کنگنیاں جو اس نے انبالے میں بنوائی تھیں آہستہ آہستہ بک گئیں۔ آخری کنگنی کی جب باری آئی تو اس نے خدا بخش سے کہا۔

’’تم میری سنو اور چلو واپس انبالے میں یہاں کیا دھرا ہے؟۔ بھئی ہو گا، پر ہمیں تو یہ شہر راس نہیں آیا۔ تمہارا کام بھی وہاں خوب چلتا تھا، چلو، وہیں چلتے ہیں۔ جو نقصان ہوا ہے اس کو اپنا سر صدقہ سمجھو۔ اس کنگنی کو بیچ کر آؤ، میں اسباب وغیرہ باندھ کر تیار رکھتی ہوں۔ آج رات کی گاڑی سے یہاں سے چل دیں گے۔ ‘‘

خدا بخش نے کنگنی سلطانہ کے ہاتھ سے لے لی اور کہا۔

’’نہیں جانِ من، انبالہ اب نہیں جائیں گے، یہیں دہلی میں رہ کر کمائیں گے۔ یہ تمہاری چوڑیاں سب کی سب یہیں واپس آئیں گی۔ اللہ پر بھروسہ رکھو۔ وہ بڑا کارساز ہے۔ یہاں بھی وہ کوئی نہ کوئی اسباب بنا ہی دے گا۔ ‘‘

سلطانہ چُپ ہورہی، چنانچہ آخری کنگنی ہاتھ سے اتر گئی۔ بُچے ہاتھ دیکھ کر اس کو بہت دُکھ ہوتا تھا، پر کیا کرتی، پیٹ بھی تو آخر کسی حیلے سے بھرنا تھا۔ جب پانچ مہینے گزر گئے اور آمدن خرچ کے مقابلے میں چوتھائی سے بھی کچھ کم رہی تو سلطانہ کی پریشانی اور زیادہ بڑھ گئی۔ خدا بخش بھی سارا دن اب گھر سے غائب رہنے لگا تھا۔ سلطانہ کو اس کا بھی دُکھ تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پڑوس میں اس کی دو تین ملنے والیاں موجود تھیں جن کے ساتھ وہ اپنا وقت کاٹ سکتی تھی پر ہر روز ان کے یہاں جانا اور گھنٹوں بیٹھے رہنا اس کو بہت بُرا لگتا تھا۔ چنانچہ آہستہ آہستہ اس نے ان سہیلیوں سے ملنا جلنا بالکل ترک کردیا۔ سارا دن وہ اپنے سنسنان مکان

میں بیٹھی رہتی۔ کبھی چھالیا کاٹتی رہتی، کبھی اپنے پرانے اور پھٹے ہوئے کپڑوں کو سیتی رہتی اور کبھی باہر بالکونی میں آ کر جنگلے کے ساتھ کھڑی ہو جاتی اور سامنے ریلوے شیڈ میں ساکت اور متحرک انجنوں کی طرف گھنٹوں بے مطلب دیکھتی رہتی۔ سڑک کی دوسری طرف مال گودام تھا جو اس کونے سے اس کونے تک پھیلا ہوا تھا۔ داہنے ہاتھ کو لوہے کی چھت کے نیچے بڑی بڑی گانٹھیں پڑی رہتی تھیں اور ہر قسم کے مال اسباب کے ڈھیر سے لگے رہتے تھے۔ بائیں ہاتھ کو کھلا میدان تھا جس میں بے شمار ریل کی پٹڑیاں بچھی ہُوئی تھیں۔ دُھوپ میں لوہے کی یہ پٹڑیاں چمکتیں تو سلطانہ اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھتی جن پر نیلی نیلی رگیں بالکل ان پٹڑیوں کی طرح اُبھری رہتی تھیں، اس لمبے اور کھلے میدان میں ہر وقت انجن اور گاڑیاں چلتی رہتی تھیں۔ کبھی ادھر کبھی اُدھر۔ ان انجنوں اور گاڑیوں کی چِھک چِھک پَھک پَھک سدا گونجتی رہتی تھی۔ صبح سویرے جب وہ اٹھ کر بالکونی میں آتی تو ایک عجیب سماں نظر آتا۔ دُھندلکے میں انجنوں کے منہ سے گاڑھا گاڑھا دُھواں نکلتا تھا اور گدلے آسمان کی جانب موٹے اور بھاری آدمیوں کی طرح اُٹھتا دکھائی دیتا تھا۔ بھاپ کے بڑے بڑے بادل بھی ایک شور کے ساتھ پٹڑیوں سے اُٹھتے تھے اور آنکھ جھپکنے کی دیر میں ہوا کے اندر گُھل مل جاتے تھے۔ پھر کبھی کبھی جب وہ گاڑی کے کسی ڈبے کو جسے انجن نے دھکا دے کر چھوڑ دیا ہو اکیلے پٹڑیوں پر چلتا دیکھتی تو اسے اپنا خیال آتا۔ وہ سوچتی کہ اسے بھی کسی نے زندگی کی پٹڑی پر دھکا دے کر چھوڑ دیا ہے اور وہ خود بخود جارہی ہے۔ دوسرے لوگ کانٹے بدل رہے ہیں اور وہ چلی جارہی ہے۔ نہ جانے کہاں۔ پھر ایک روز ایسا آئے گا جب اس دھکے کا زور آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گا اور وہ کہیں رک جائیگی۔ کسی ایسے مقام پر جو اس کا دیکھا بھالا نہ ہو گا۔ یوں تو وہ بے مطلب گھنٹوں ریل کی ان ٹیڑھی بانکی پٹڑیوں اور ٹھہرے اور چلتے ہُوئے انجنوں کی طرف دیکھتی رہتی تھی پر طرح طرح کے خیال اس کے دماغ میں آتے رہتے تھے۔ ابنالہ چھاؤنی میں جب وہ رہتی تھی تو اسٹیشن کے پاس ہی اس کا مکان تھا مگروہاں اس نے کبھی ان چیزوں کو ایسی نظروں سے نہیں دیکھا تھا۔ اب تو کبھی کبھی اس کے دماغ میں یہ بھی خیال آتا کہ یہ جو سامنے ریل کی پٹڑیوں کا جال سا بچھا ہے اور جگہ جگہ سے بھاپ اور دھواں اٹھ رہا ہے ایک بہت بڑا چکلہ ہے۔ بہت سی گاڑیاں ہیں جن کو چند موٹے موٹے انجن ادھر ادھر دھکیلتے رہتے ہیں۔

سلطانہ کو تو بعض اوقات یہ انجن سیٹھ معلوم ہوتے ہیں جو کبھی کبھی انبالہ میں اس کے ہاں آیا کرتے تھے۔ پھر کبھی کبھی جب وہ کسی انجن کو آہستہ آہستہ گاڑیوں کی قطار کے پاس سے گزرتا دیکھتی تو اسے ایسا محسوس ہوتا کہ کوئی آدمی چکلے کے کسی بازار میں سے اوپر کوٹھوں کی طرف دیکھتا جارہاہے۔ سلطانہ سمجھتی تھی کہ ایسی باتیں سوچنا دماغ کی خرابی کا باعث ہے، چنانچہ جب اس قسم کے خیال اس کو آنے لگے تو اس نے بالکونی میں جانا چھوڑ دیا۔ خدا بخش سے اس نے بارہا کہا۔

’’دیکھو، میرے حال پر رحم کرو۔ یہاں گھر میں رہا کرو۔ میں سارا دن یہاں بیماروں کی طرح پڑی رہتی ہوں۔ ‘‘

مگر اُس نے ہر بار سلطانہ سے یہ کہہ کر اُس کی تشفی کردی۔

’’جانِ من۔ میں باہر کچھ کمانیکی فکر کررہا ہوں۔ اللہ نے چاہا تو چند دنوں ہی میں بیڑا پار ہو جائے گا۔ ‘‘

پورے پانچ مہینے ہو گئے تھے مگر ابھی تک نہ سلطانہ کا بیڑا پار ہوا تھا نہ خدا بخش کا۔ محرم کا مہینہ سر پر آرہا تھا مگر سلطانہ کے پاس کالے کپڑے بنوانے کے لیے کچھ بھی نہ تھا۔ مختار نے لیڈی ہیملٹن کی ایک نئی وضع کی قمیض بنوائی تھی جس کی آستینیں کالی جارجٹ کی تھیں

۔ اس کے ساتھ میچ کرنے کے لیے اس کے پاس کالی ساٹن کی شلوار تھی جو کاجل کی طرح چمکتی تھی۔ انوری نے ریشمی جارجٹ کی ایک بڑی نفیس ساڑھی خریدی تھی۔ اس نے سلطانہ سے کہا تھا کہ وہ اس ساڑھی کے نیچے سفید بوسکی کا پیٹی کوٹ پہنے گی کیونکہ یہ نیا فیشن ہے۔ اس ساڑھی کے ساتھ پہننے کو انوری کالی مخمل کا ایک جوتا لائی تھی جو بڑا نازک تھا۔ سلطانہ نے جب یہ تمام چیزیں دیکھیں تو اُس کو اس احساس نے بہت دکھ دیا کہ وہ محرم منانے کے لیے ایسا لباس خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتی۔ انوری اور مختار کے پاس یہ لباس دیکھ کر جب وہ گھر آئی تو اس کا دل بہت مغموم تھا۔ اسے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پھوڑا سا اس کے اندر پیدا ہو گیا ہے۔ گھر بالکل خالی تھا۔ خدا بخش حسبِ معمول باہر تھا۔ دیر تک وہ دری پر گاؤ تکیہ سر کے نیچے رکھ کر لیٹی رہی، پرجب اس کی گردن اونچائی کے باعث اکڑ سی گئی تو اٹھ کر باہر بالکونی میں چلی گئی تاکہ غم افزا خیالات کو اپنے دماغ میں سے نکال دے۔ سامنے پٹڑیوں پر گاڑیوں کے ڈبے کھڑے تھے پر انجن کوئی بھی نہ تھا۔ شام کا وقت تھا۔ چھڑکاؤ ہو چکا تھا اس لیے گرد و غبار دب گیا تھا۔ بازار میں ایسے آدمی چلنے شروع ہو گئے تھے جو تاک جھانک کرنے کے بعد چپ چاپ گھروں کا رخ کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک آدمی نے گردن اونچی کرکے سطانہ کی طرف دیکھا۔ سلطانہ مسکرا دی اور اس کوبھول گئی کیونکہ اب سامنے پٹڑیوں پر ایک انجن نمودار ہو گیا تھا۔ سلطانہ نے غورسے اس کی طرف دیکھنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ یہ خیال اس کے دماغ میں آیا کہ انجن نے بھی کالا لباس پہن رکھا ہے۔ یہ عجیب و غریب خیال دماغ سے نکالنے کی خاطر جب اس نے سڑک کی جانب دیکھا تو اسے وہی آدمی بیل گاڑی کے پاس کھڑا نظر آیا جس نے اس کی طرف للچائی نظروں سے دیکھا تھا۔ سلطانہ نے ہاتھ سے اُسے اشارہ کیا۔ اس آدمی نے اِدھر اُدھر دیکھ کر ایک لطیف اشارے سے پوچھا، کدھر سے آؤں، سلطانہ نے اسے راستہ بتا دیا۔ وہ آدمی تھوڑی دیر کھڑا رہا مگر پھر بڑی پُھرتی سے اوپر چلا آیا۔ سلطانہ نے اسے دری پر بٹھایا۔ جب وہ بیٹھ گیا تو اس نے سلسلہ گفتگو شروع کرنے کے لیے کہا۔

’’آپ اوپر آتے ڈر رہے تھے۔ ‘‘

وہ آدمی یہ سن کر مسکرایا۔

’’تمہیں کیسے معلوم ہُوا۔ ڈرنے کی بات ہی کیا تھی؟‘‘

اس پر سلطانہ نے کہا۔

’’یہ میں نے اس لیے کہا کہ آپ دیر تک وہیں کھڑے رہے اور پھر کچھ سوچ کر ادھر آئے۔ ‘‘

وہ یہ سُن کر پھر مسکرایا۔

’’تمہیں غلط فہمی ہُوئی۔ میں تمہارے اوپر والے فلیٹ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہاں کوئی عورت کھڑی ایک مرد کو ٹھینگا دکھا رہی تھی۔ مجھے یہ منظر پسند آیا۔ پھر بالکونی میں سبز بلب روشن ہُوا تو میں کچھ دیر کے لیے ٹھہر گیا۔ سبز روشنی مجھے پسند ہے۔ آنکھوں کو بہت اچھی لگتی ہے۔ ‘‘

یہ کہہ اس نے کمرے کا جائزہ لینا شروع کردیا۔ پھر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ سلطانہ نے پوچھا۔

’’آپ جارہے ہیں؟‘‘

اس آدمی نے جواب دیا۔

’’نہیں، میں تمہارے اس مکان کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ چلو مجھے تمام کمرے دکھاؤ۔ ‘‘

سلطانہ نے اس کو تینوں کمرے ایک ایک کرکے دکھا دیے۔ اس آدمی نے بالکل خاموشی سے ان کمروں کا معائنہ کیا۔ جب وہ دونوں پھر اُسی کمرے میں آگئے جہاں پہلے بیٹھے تو اس آدمی نے کہا۔

’’میرا نام شنکر ہے۔ ‘‘

سلطانہ نے پہلی بار غور سے شنکر کی طرف دیکھا۔ وہ متوسط قد کا معمولی شکل و صورت کا آدمی تھا مگر اس کی آنکھیں غیرمعمولی طور پر صاف اور شفاف تھیں۔ کبھی کبھی ان میں ایک عجیب قسم کی چمک بھی پیدا ہوتی تھی۔ گٹھیلا اور کسرتی بدن تھا۔ کنپٹیوں پر اس کے بال سفید ہورہے تھے۔ خاکستری رنگ کی گرم پتلون پہنے تھا۔ سفید قمیض تھی جس کا کالر گردن پر سے اوپر کو اُٹھا ہوا تھا۔ شنکر کچھ اس طرح دری پر بیٹھا تھا کہ معلوم ہوتا تھا شنکر کے بجائے سلطانہ گاہک ہے۔ اس احساس نے سلطانہ کو قدرے پریشان کردیا۔ چنانچہ اس نے شنکر سے کہا۔

’’فرمائیے۔ ‘‘

شنکر بیٹھا تھا، یہ سُن کر لیٹ گیا۔

’’میں کیا فرماؤں، کچھ تم ہی فرماؤ۔ بلایا تمہیں نے ہے مجھے۔ ‘‘

جب سلطانہ کچھ نہ بولی تو وہ اُٹھ بیٹھا۔

’’میں سمجھا، لو اب مجھ سے سُنو، جو کچھ تم نے سمجھا، غلط ہے، میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو کچھ دیکر جاتے ہیں۔ ڈاکٹروں کی طرح میری بھی فیس ہے۔ مجھے جب بلایا جائے تو فیس دینا ہی پڑتی ہے۔ ‘‘

سلطانہ یہ سُن کر چکرا گئی مگر اس کے باوجود اسے بے اختیار ہنسی آگئی۔

’’آپ کام کیا کرتے ہیں؟‘‘

شنکر نے جواب دیا۔

’’یہی جو تم لوگ کرتے ہو۔ ‘‘

’’کیا؟‘‘

’’تم کیا کرتی ہو؟‘‘

’’میں۔ میں۔ میں کچھ بھی نہیں کرتی۔ ‘‘

’’میں بھی کچھ نہیں کرتا۔ ‘‘

سلطانہ نے بھنا کر کہا۔

’’یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ آپ کچھ نہ کچھ تو ضرور کرتے ہوں گے۔ ‘‘

شنکر نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔

’’تم بھی کچھ نہ کچھ ضرور کرتی ہو گی۔ ‘‘

’’جھک مارتی ہوں۔ ‘‘

’’میں بھی جھک مارتا ہوں۔ ‘‘

’’تو آؤ دونوں جھک ماریں۔ ‘‘

’’میں حاضر ہوں مگر جھک مارنے کے لیے دام میں کبھی نہیں دیا کرتا۔ ‘‘

’’ہوش کی دوا کرو۔ یہ لنگر خانہ نہیں۔ ‘‘

’’اور میں بھی والنٹیر نہیں ہوں۔ ‘‘

سلطانہ یہاں رک گئی۔ اس نے پوچھا۔

’’یہ والنٹیر کون ہوتے ہیں۔ ‘‘

شنکر نے جواب دیا۔

’’اُلو کے پٹھے۔ ‘‘

’’میں بھی الو کی پٹھی نہیں۔ ‘‘

’’مگر وہ آدمی خدا بخش جو تمہارے ساتھ رہتا ہے ضرور اُلو کا پٹھا ہے۔ ‘‘

’’کیوں؟‘‘

اس لیے کہ وہ کئی دنوں سے ایک ایسے خدا رسیدہ فقیر کے پاس اپنی قسمت کھلوانے کی خاطر جارہا ہے جس کی اپنی قسمت زنگ لگے تالے کی طرح بند ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر شنکر ہنسا۔ اس پر سلطانہ نے کہا۔

’’تم ہندو ہو، اسی لیے ہمارے ان بزرگوں کا مذاق اُڑاتے ہو۔ ‘‘

شنکر مسکرایا۔

’’ایسی جگہوں پر ہندو مسلم سوال پیدا نہیں ہُوا کرتے۔ پنڈت مالویہ اور مسٹر جناح اگر یہاں آئیں تو وہ بھی شریف آدمی بن جائیں۔ ‘‘

’’جانے تم کیا اوٹ پٹانگ باتیں کرتے ہو۔ بولو رہو گے؟‘‘

’’اسی شرط پر جو پہلے بتا چکا ہُوں۔ ‘‘

سلطانہ اُٹھ کھڑی ہُوئی۔

’’تو جاؤ رستہ پکڑو۔ ‘‘

شنکر آرام سے اُٹھا۔ پتلون کی جیبوں میں اس نے اپنے دونوں ہاتھ ٹھونسے اور جاتے ہوئے کہا۔

’’میں کبھی کبھی اس بازار سے گزرا کرتا ہُوں۔ جب بھی تمہیں میری ضرورت ہو بلا لینا۔ میں بہت کام کا آدمی ہوں۔ ‘‘

شنکر چلا گیا اور سلطانہ کالے لباس کو بھول کر دیر تک اس کے متعلق سوچتی رہی۔ اس آدمی کی باتوں نے اس کے دکھ کو بہت ہلکا کردیا تھا۔ اگر وہ انبالے میں آیا ہوتا جہاں کہ وہ خوشحال تھی تو اُس نے کسی اور ہی رنگ میں اس آدمی کو دیکھا ہوتا اور بہت ممکن ہے کہ اسے دھکے دیکر باہر نکال دیا ہوتا مگر یہاں چونکہ وہ بہت اداس رہتی تھی، اس لیے شنکر کی باتیں اسے

پسند آئیں۔ شام کو جب خدا بخش آیا تو سلطانہ نے اُس سے پوچھا۔

’’تم آج سارا دن کدھر غائب رہے ہو؟‘‘

خدا بخش تھک کر چُور چُور ہورہا تھا، کہنے لگا۔

’’پرانے قلعہ کے پاس سے آرہا ہوں۔ وہاں ایک بزرگ کچھ دنوں سے ٹھہرے ہُوئے ہیں، انہی کے پاس ہر روز جاتا ہُوں کہ ہمارے دن پھر جائیں۔ ‘‘

’’کچھ انھوں نے تم سے کہا؟‘‘

’’نہیں، ابھی وہ مہربان نہیں ہُوئے۔ پر سلطانہ، میں جو ان کی خدمت کررہا ہوں وہ اکارت کبھی نہیں جائے گی۔ اللہ کا فضل شامل حال رہا تو ضرور وارے نیارے ہو جائیں گے۔ ‘‘

سلطانہ کے دماغ میں محرم منانے کا خیال سمایا ہوا تھا، خدا بخش سے رونی آواز میں کہنے لگی۔

’’سارا سارا دن باہر غائب رہتے ہو۔ میں یہاں پنجرے میں قید رہتی ہوں، نہ کہیں جاسکتی ہوں نہ آسکتی ہوں۔ محرم سر پر آگیا ہے، کچھ تم نے اسکی بھی فکر کی کہ مجھے کالے کپڑے چاہئیں، گھر میں پھوٹی کوڑی تک نہیں۔ کنگنیاں تھیں سو وہ ایک ایک کرکے بِک گئیں، اب تم ہی بتاؤ کیا ہو گا؟۔ یوں فقیروں کے پیچھے کب تک مارے مارے پھرا کرو گے۔ مجھے تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہاں دہلی میں خدا نے بھی ہم سے منہ موڑ لیا ہے۔ میری سنو تو اپنا کام شروع کردو۔ کچھ تو سہارا ہو ہی جائے گا۔ ‘‘

خدا بخش دری پر لیٹ گیا اور کہنے لگا۔

’’پر یہ کام شروع کرنے کے لیے بھی تو تھوڑا بہت سرمایہ چاہیے۔ خدا کے لیے اب ایسی دُکھ بھری باتیں نہ کرو۔ مجھ سے اب برداشت نہیں ہوسکتیں۔ میں نے سچ مچ انبالہ چھوڑنے میں سخت غلطی کی، پر جو کرتا ہے اللہ ہی کرتا ہے اور ہماری بہتری ہی کے لیے کرتا ہے، کیا پتا ہے کہ کچھ دیر اور تکلیفیں برداشت کرنے کے بعد ہم۔ ‘‘

سلطانہ نے بات کاٹ کر کہا۔

’’تم خدا کے لیے کچھ کرو۔ چوری کرو یا ڈاکہ مارو پر مجھے ایک شلوار کا کپڑا ضرور لادو۔ میرے پاس سفید بوسکی کی قمیض پڑی ہے، اس کو میں کالا رنگوالوں گی۔ سفید نینوں کا ایک نیا دوپٹہ بھی میرے پاس موجود ہے، وہی جو تم نے مجھے دیوالی پر لا کر دیا تھا، یہ بھی قیض کیساتھ ہی کالا رنگوا لیا جائے گا۔ ایک صرف شلوار کی کسر ہے، سووہ تم کسی نہ کسی طرح پیدا کردو۔ دیکھو تمہیں میری جان کی قسم کسی نہ کسی طرح ضرور لادو۔ میری بھتی کھاؤ اگر نہ لاؤ۔ ‘‘

خدا بخش اُٹھ بیٹھا۔

’’اب تم خواہ مخواہ زور دیئے چلی جارہی ہو۔ میں کہاں سے لاؤں گا۔ افیم کھانے کے لیے تو میرے پاس پیسہ نہیں۔ ‘‘

’’کچھ بھی کرو مگر مجھے ساڑھے چار گز کالی ساٹن لادو۔ ‘‘

’’دعا کرو کہ آج رات ہی اللہ دو تین آدمی بھیج دے۔ ‘‘

’’لیکن تم کچھ نہیں کرو گے۔ تم اگر چاہو تو ضرور اتنے پیسے پیدا کرسکتے ہو۔ جنگ سے پہلے یہ ساٹن بارہ چودہ آنہ گز مل جاتی تھی، اب سوا روپے گز کے حساب سے ملتی ہے۔ ساڑھے چار گزوں پرکتنے روپے خرچ ہو جائیں گے؟‘‘

’’اب تم کہتی ہو تو میں کوئی حیلہ کروں گا۔ ‘‘

یہ کہہ کر خدا بخش اُٹھا۔

’’لو اب ان باتوں کو بھول جاؤ، میں ہوٹل سے کھانا لے آؤں۔ ‘‘

ہوٹل سے کھانا آیا دونوں نے مل کر زہر مار کیا اور سو گئے۔ صبح ہوئی۔ خدا بخش پرانے قلعے والے فقیر کے پاس چلا گیا اور سلطانہ اکیلی رہ گئی۔ کچھ دیر لیٹی رہی، کچھ دیر سوئی رہی۔ اِدھر اُدھر کمروں میں ٹہلتی رہی، دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد اس نے اپنا سفید نینوں کا دوپٹہ اور سفید بوسکی کی قمیض نکالی اور نیچے لانڈری والے کو رنگنے کے لیے دے آئی۔ کپڑے دھونے کے علاوہ وہاں رنگنے کا کام بھی ہوتا تھا۔ یہ کام کرنے کے بعد اس نے واپس آکر فلموں کی کتابیں پڑھیں جن میں اس کی دیکھی ہوئی فلموں کی کہانی اور گیت چھپے ہُوئے تھے۔ یہ کتابیں پڑھتے پڑھتے وہ سو گئی، جب اٹھی تو چار بج چکے تھے کیونکہ دھوپ آنگن میں سے موری کے پاس پہنچ چکی تھی۔ نہا دھو کر فارغ ہُوئی تو گرم چادر اوڑھ کر بالکونی میں آکھڑی ہُوئی۔ قریباً ایک گھنٹہ سلطانہ بالکونی میں کھڑی رہی۔ اب شام ہو گئی تھی۔ بتیاں روشن ہورہی تھیں۔ نیچے سڑک میں رونق کے آثار نظر آنے لگے۔ سردی میں تھوڑی سی شدت ہو گئی تھی مگر سلطانہ کو یہ ناگوار معلوم نہ ہُوئی۔ وہ سڑک پر آتے جاتے ٹانگوں اور موٹروں کی طرف ایک عرصہ سے دیکھ رہی تھی۔ دفعتہ اسے شنکر نظر آیا۔ مکان کے نیچے پہنچ کر اس نے گردن اونچی کی اور سلطانہ کی طرف دیکھ کر مسکرا دیا۔ سلطانہ نے غیر ارادی طور پر ہاتھ کا اشارہ کیا اور اسے اوپر بلا لیا۔ جب شنکر اوپر آگیا تو سلطانہ بہت پریشان ہُوئی کہ اس سے کیا کہے۔ دراصل اس نے ایسے ہی بلا سوچے سمجھے اسے اشارہ کردیا تھا۔ شنکر بے حد مطمئن تھا جیسے اسکا اپنا گھر ہے، چنانچہ بڑی بے تکلفی سے پہلے روز کی طرح وہ گاؤ تکیہ سر کے نیچے

رکھ کر لیٹ گیا۔ جب سلطانہ نے دیر تک اس سے کوئی بات نہ کی تو اس سے کہا۔

’’تم مجھے سو دفعہ بُلا سکتی ہو اور سو دفعہ ہی کہہ سکتی ہو کہ چلے جاؤ۔ میں ایسی باتوں پر کبھی ناراض نہیں ہُوا کرتا۔ ‘‘

سلطانہ شش و پنج میں گرفتار ہو گئی، کہنے لگی۔

’’نہیں بیٹھو، تمہیں جانے کو کون کہتا ہے۔ ‘‘

شنکر اس پر مسکرا دیا۔

’’تو میری شرطیں تمہیں منظور ہیں۔ ‘‘

’’کیسی شرطیں؟‘‘

سلطانہ نے ہنس کر کہا۔

’’کیا نکاح کررہے ہو مجھ سے؟‘‘

’’نکاح اور شادی کیسی؟۔ نہ تم عمر بھر میں کسی سے نکاح کرو گی نہ میں۔ یہ رسمیں ہم لوگوں کے لیے نہیں۔ چھوڑو ان فضولیات کو۔ کوئی کام کی بات کرو۔ ‘‘

’’بولو کیا بات کروں؟‘‘

’’تم عورت ہو۔ کوئی ایسی بات شروع کرو جس سے دو گھڑی دل بہل جائے۔ اس دنیا میں صرف دوکانداری ہی دوکانداری نہیں، اور کچھ بھی ہے۔ ‘‘

سلطانہ ذہنی طور پر اب شنکر کو قبول کرچکی تھی۔ کہنے لگی۔

’’صاف صاف کہو، تم مجھ سے کیا چاہتے ہو۔ ‘‘

’’جو دوسرے چاہتے ہیں۔ ‘‘

شنکر اُٹھ کر بیٹھ گیا۔

’’تم میں اور دوسروں میں پھر فرق ہی کیا رہا۔ ‘‘

’’تم میں اور مجھ میں کوئی فرق نہیں۔ ان میں اور مجھ میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ایسی بہت سی باتیں ہوتی ہیں جو پوچھنا نہیں چاہئیں خود سمجھنا چاہئیں۔ ‘‘

سلطانہ نے تھوڑی دیر تک شنکر کی اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی پھر کہا۔

’’میں سمجھ گئی ہوں۔ ‘‘

’’تو کہو، کیا ارادہ ہے۔ ‘‘

’’تم جیتے، میں ہاری۔ پر میں کہتی ہُوں، آج تک کسی نے ایسی بات قبول نہ کی ہو گی۔ ‘‘

’’تم غلط کہتی ہو۔ اسی محلے میں تمہیں ایسی سادہ لوح عورتیں بھی مل جائینگی جو کبھی یقین نہیں کریں گی کہ عورت ایسی ذلت قبول کرسکتی ہے جو تم بغیر کسی احساس کے قبول کرتی رہی ہو۔ لیکن ان کے نہ یقین کرنے کے باوجود تم ہزاروں کی تعداد میں موجود ہو۔ تمہارا نام سلطانہ ہے نا؟‘‘

’’سلطانہ ہی ہے۔ ‘‘

شنکر اُٹھ کھڑا ہوا اور ہنسنے لگا۔

’’میرا نام شکر ہے۔ یہ نام بھی عجب اوٹ پٹانگ ہوتے ہیں، چلو آؤ اندر چلیں۔ ‘‘

شنکر اور سلطانہ دری والے کمرے میں واپس آئے تو دونوں ہنس رہے تھے، نہ جانے کس بات پر۔ جب شنکر جانے لگا تو سلطانہ نے کہا۔

’’شنکر میری ایک بات مانو گے؟‘‘

شنکر نے جواباً کہا۔

’’پہلے بات بتاؤ۔ ‘‘

سلطانہ کچھ جھینپ سی گئی۔

’’تم کہو گے کہ میں دام وصول کرنا چاہتی ہوں مگر۔ ‘‘

’’کہو کہو۔ رُک کیوں گئی ہو۔ ‘‘

سلطانہ نے جرأت سے کام لے کر کہا۔

’’بات یہ ہے کہ محرم آرہا ہے اور میرے پاس اتنے پیسے نہیں کہ میں کالی شلوار بنوا سکوں۔ یہاں کے سارے دکھڑے تو تم مجھ سے سُن ہی چکے ہو۔ قمیض اور دوپٹہ میرے پاس موجود تھا جو میں نے آج رنگوانے کے لیے دیدیا ہے۔ ‘‘

شنکر نے یہ سن کرکہا۔

’’تم چاہتی ہو کہ میں تمہیں کچھ روپے دے دوں جو تم یہ کالی شلوار بنوا سکو۔ ‘‘

سلطانہ نے فوراً ہی کہا۔

’’نہیں، میرا مطلب یہ ہے کہ اگر ہو سکے تو تم مجھے ایک کالی شلوار بنوا دو۔ ‘‘

شنکر مسکرایا۔

’’میری جیب میں تو اتفاق ہی سے کبھی کچھ ہوتا ہے، بہر حال میں کوشش کروں گا۔ محرم کی پہلی تاریخ کو تمہیں یہ شلوار مل جائے گی۔ لے بس اب خوش ہو گئیں۔ ‘‘

سلطانہ کے بُندوں کی طرف دیکھ کر شنکر نے پوچھا۔

’’کیا یہ بُندے تم مجھے دے سکتی ہو؟‘‘

سلطانہ نے ہنس کر کہا۔

’’تم انھیں کیا کرو گے۔ چاندی کے معمولی بُندے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ پانچ روپے کے ہوں گے۔ ‘‘

اس پر شنکر نے کہا۔

’’میں نے تم سے بندے مانگے ہیں۔ ان کی قیمت نہیں پوچھی، بولو، دیتی ہو۔ ‘‘

’’لے لو۔ ‘‘

یہ کہہ کر سلطانہ نے بُندے اتار کر شنکر کو دے دیے۔ اس کے بعد افسوس ہوا مگر شنکر جا چکا تھا۔ سلطانہ کو قطعاً یقین نہیں تھا کہ شنکر اپنا وعدہ پورا کرے گا مگر آٹھ روز کے بعد محرم کی پہلی تاریخ کو صبح نو بجے دروازے پر دستک ہُوئی۔ سلطانہ نے دروازہ کھولا تو شنکر کھڑا تھا۔ اخبار میں لپٹی ہوئی چیز اس نے سلطانہ کو دی اور کہا۔

’’ساٹن کی کالی شلوار ہے۔ دیکھ لینا، شاید لمبی ہو۔ اب میں چلتا ہوں۔ ‘‘

شنکر شلوار دے کر چلا گیا اورکوئی بات اس نے سلطانہ سے نہ کی۔ اس کی پتلون میں شکنیں پڑی ہوئی تھیں۔ بال بکھرے ہُوئے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ابھی ابھی سو کر اٹھا ہے اور سیدھا ادھر ہی چلا آیا ہے۔ سلطانہ نے کاغذ کھولا۔ ساٹن کی کالی شلوار تھی ایسی ہی جیسی کہ وہ انوری کے پاس دیکھ کر آئی تھی۔ سلطانہ بہت خوش ہُوئی۔ بندوں اور اُس سودے کا جو افسوس اسے ہُوا تھا اس شلوار نے اور شنکر کی وعدہ ایفائی نے دور کردیا۔ دوپہر کو وہ نیچے لانڈری والے سے اپنی رنگی ہوئی قمیض اور دوپٹہ لے کر آئی۔ تینوں کالے کپڑے اس نے جب پہن لیے تو دروازے پر دستک ہُوئی۔ سلطانہ نے دروازہ کھولا تو انوری اندر داخل ہوئی۔ اس نے سلطانہ کے تینوں کپڑوں کی طرف دیکھا اور کہا۔

’’قمیض اور دوپٹہ تو رنگا ہُوا معلوم ہوتا ہے، پر یہ شلوار نئی ہے۔ کب بنوائی؟‘‘

سلطانہ نے جواب دیا۔

’’آج ہی درزی لایا ہے۔ ‘‘

یہ کہتے ہوئے اس کی نظریں انوری کے کانوں پر پڑیں۔

’’یہ بُندے تم نے کہاں سے لیے؟‘‘

انوری نے جواب دیا۔

’’آج ہی منگوائے ہیں۔ ‘‘

اس کے بعد دونوں کو تھوڑی دیر تک خاموش رہنا پڑا۔

سعادت حسن منٹو
]]>
https://hybridlearning.pk/2018/12/04/%da%a9%d8%a7%d9%84%db%8c-%d8%b4%d9%84%d9%88%d8%a7%d8%b1/feed/ 0
میاں عاطف کا جرم کیا ہے؟ https://hybridlearning.pk/2018/09/04/%d9%85%db%8c%d8%a7%da%ba-%d8%b9%d8%a7%d8%b7%d9%81-%da%a9%d8%a7-%d8%ac%d8%b1%d9%85-%da%a9%db%8c%d8%a7-%db%81%db%92%d8%9f/ https://hybridlearning.pk/2018/09/04/%d9%85%db%8c%d8%a7%da%ba-%d8%b9%d8%a7%d8%b7%d9%81-%da%a9%d8%a7-%d8%ac%d8%b1%d9%85-%da%a9%db%8c%d8%a7-%db%81%db%92%d8%9f/#respond Tue, 04 Sep 2018 01:18:29 +0000 https://hybridlearning.pk/2018/09/04/%d9%85%db%8c%d8%a7%da%ba-%d8%b9%d8%a7%d8%b7%d9%81-%da%a9%d8%a7-%d8%ac%d8%b1%d9%85-%da%a9%db%8c%d8%a7-%db%81%db%92%d8%9f/ میاں عاطف کا جرم کیا ہے؟ عاطف میاں جو اعلانیہ قادیانی ہے ان کو خان صاحب نے پاکستان کے اقتصادی کونسل کے ممبر کو طور […]

]]>

میاں عاطف کا جرم کیا ہے؟

عاطف میاں جو اعلانیہ قادیانی ہے ان کو خان صاحب نے پاکستان کے اقتصادی کونسل کے ممبر کو طور پر لیا ہے جس سے پاکستانی عوام میں ایک بے چینی کی لہر دوڑ چکی ہے.خان صاحب سے پی ٹی آئی کے نوعمر ورکرز بے انتہاء محبت کرتے ہیں اور اس محبت میں غلو کی وجہ سے بڑے اہم وسنجیدہ مسائل بھی سیاسی بحثا بحثی کے شکار ہورہے ہیں جو ایک پریشان کن مسئلہ ہے۔ پی ٹی آئی کے ورکرز نے اس ایشو کو یہ رنگ دیا ہے کہ عاطف میاں قادیانی ہے تو اس رو سے یہ کافر ہوئے اور کافر کو کوئی سرکاری عہدہ دینا کونسا جرم ہے اقلیتیں بھی تو پاکستانی ہیں. یہ ایک غلط توجیہ ہے پہلی بات یہ ہے کہ قادیانی عام کافر نہیں ہے بلکہ اسلامی نقطہ نظر سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری پیغمبر تسلیم نہ کرکے اسلام سے مرتد قرار پاچکے ہیں

اور اسلام میں مرتد کے احکام دیگر کفار سے مختلف ہیں دیگر کفار کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہب پر عمل پیرا رہ کر زندگی گزارے اسلام ان پر کوئی پابندی نہیں لگاتا اور ملکی مناصب پر آسکتے ہیں (جیسے پاکستان میں بھگوان داس صاحب قائم مقام چیف جسٹس رہ چکے ہیں)

لیکن مرتد جس نے اسلام کو قبول کیا اور پھر اسلام کے لازمی عقیدہ سے انکار کرکے ارتداد اختیار کیا تو اس کے متعلق اسلامی تصور یہ ہے کہ تین دن اس پر اسلام کی حقانیت واضح کی جائے گی اگر اسلام کی طرف پلٹ آیا تو بہتر ورنہ اس کو اسلام کے دستور کا باغی قرار دے کر حاکم اس کو حدا قتل کردے گا۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سزا مسلمانوں نے خود سے متعین کی ہے یا رسول اللہ ﷺ کا فرمان عالی شان اس متعلق موجود ہے تو جواب یہی ہے کہ یہ سزا پیغمبر اسلام نے مقرر فرمائی ہے چنانچہ بخاری شریف میں حدیث آئی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

مَنْ بّدَّلَ دِیْنَہ فاقْتلُوہ
یعنی جو شخص اپنا دین اسلام بدل کر کفر اختیار کرے اور مرتد ہوجائے اسے قتل کردو۔

اورایک دوسری حدیث المعجم الکبیر للطبرانی میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

من بدل دینہ فاقتلوہ إن اللہ لا یقبل توبة عبد کفر بعد إسلامہ یہ دونوں زیلعی: ج۲ ص۱۵۷ میں مذکور ہیں۔

حضور ﷺ کے اس فرمان کو بنیاد بنا کر پوری دنیا کے مشہور چاروں مذاہب کے فقہاء کرام نے یہ موقف اختیار کیا ہیں ملاحظہ فرمائیں:

فقہ حنفی:
چنانچہ فقہ حنفی کی مشہور کتاب ہدایہ میں ہے:
”واذا ارتد المسلم عن الاسلام والعیاذ باللہ․ عرض علیہ الاسلام فان کانت لہ شبہة کشفت عنہ ویحبس ثلاثة ایام فان اسلم والاقتل“․ (ہدایہ اولین ص:۵۸۰، ج:۱)
ترجمہ: ”اور جب کوئی مسلمان نعوذ باللہ! اسلام سے پھرجائے تو اس پر اسلام پیش کیاجائے، اس کو کوئی شبہ ہو تو دور کیا جائے، اس کو تین دن تک قید رکھاجائے، اگر اسلام کی طرف لوٹ آئے تو ٹھیک، ورنہ اسے قتل کردیا جائے۔“

فقہ شافعی:
فقہ شافعی کی شہرئہ آفاق کتاب المجموع شرح المہذب میں ہے:
”اذا ارتد الرجل وجب قتلہ، سواء کان حرا او عبدا ․․․ وقد انعقد الاجماع علی قتل المرتد“ (المجموع شرح المہذب، ص:۲۲۸، ج:۱۹)
ترجمہ: ”اور جب آدمی مرتد ہوجائے تو اس کا قتل واجب ہے، خواہ وہ آزاد ہو یا غلام، اور قتل مرتد پر اجماع منعقد ہوچکا ہے۔“

فقہ حنبلی:

فقہ حنبلی کی معرکة الآراء کتاب المغنی اور الشرح الکبیر میں ہے:
”واجمع اہل العلم علی وجوب قتل المرتد، وروی ذلک عن ابی بکر و عمر وعثمان وعلی و معاذ و ابی موسیٰ وابن عباس وخالد (رضی اللہ عنہم) وغیرہم، ولم ینکر ذلک فکان اجماعا“۔(المغنی مع الشرح الکبیر،ص:۷۴، ج:۱۰)
ترجمہ: ”قتل مرتد کے واجب ہونے پر اہل علم کا اجماع ہے، یہ حکم حضرت ابوبکر، عمر، عثمان، علی، معاذ، ابوموسیٰ،ابن عباس، خالد اور دیگرحضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے اور اس کا کسی صحابی نے انکار نہیں کیا، اس لئے یہ اجماع ہے۔“

فقہ مالکی:
فقہ مالکی کے عظیم محقق ابن رشد مالکی کی مشہور زمانہ کتاب ”بدایة المجتہد“ میں ہے:

”والمرتد اذا ظفر بہ قبل ان یحارب فاتفقوا علی انہ یقتل الرجل لقولہ علیہ الصلوٰة والسلام: ”من بدل دینہ فاقتلوہ“ (بدایة المجتہد ص:۳۴۳، ج:۲)
ترجمہ: ”اور مرتد جب لڑائی سے قبل پکڑا جائے تو تمام علمائے امت اس پر متفق ہیں کہ مرتد کو قتل کیا جائے گا، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ”جو شخص اپنا مذہب بدل کر مرتد ہوجائے، اس کو قتل کردو۔“

چاروں مذاہب کےبالمقابل ہندوستان کے ایک عالم دین مولانا وحید الدین خان کا کہنا یہ ہے کہ یہ سزا اس وقت دور کے ساتھ خاص ہے فقہ ابدی نہیں ہوتا ہے اس وقت اسلام سے ارتداد گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بحیثیت حاکم مخالفت شمار ہوتی تھی اس لیے ان کو قتل کی سزا سنائی گئی تھی

پہلی بات تو یہ ہے کہ حضور ﷺ کے فرامین اس سزا متعلق اطلاقی ہیں پوری امت (تقریبا) اس سزا کو مانتی آئی ہے لہذا اس شاذ توجیہ کو امت نے کبھی قبول نہیں کیا ہے

اگر میاں عاطف کے کیس میں بالفرض تسلیم بھی کیا جائے تو اس بارے میں یہ بھی ملحوظ رہے کہ قادیانی آئین پاکستان کے باغی ہیں اور آئین پاکستان سے باغی گروہ وشخص کو نوازنے کا حق ریاست کے کسی فرد کے پاس نہیں ہے۔

لہذا پی ٹی آئی کے دوست سیاسی محبت میں سنجیدہ مذہبی مسائل کو تختہ مشق نہ بنائیں اور ایسے ایشوز میں بے جا حمایت سے احتراز فرمائیں۔

]]>
https://hybridlearning.pk/2018/09/04/%d9%85%db%8c%d8%a7%da%ba-%d8%b9%d8%a7%d8%b7%d9%81-%da%a9%d8%a7-%d8%ac%d8%b1%d9%85-%da%a9%db%8c%d8%a7-%db%81%db%92%d8%9f/feed/ 0
پورن گرافی کی تاریخ https://hybridlearning.pk/2016/11/26/%d9%be%d9%88%d8%b1%d9%86-%da%af%d8%b1%d8%a7%d9%81%db%8c-%da%a9%db%8c-%d8%aa%d8%a7%d8%b1%db%8c%d8%ae/ https://hybridlearning.pk/2016/11/26/%d9%be%d9%88%d8%b1%d9%86-%da%af%d8%b1%d8%a7%d9%81%db%8c-%da%a9%db%8c-%d8%aa%d8%a7%d8%b1%db%8c%d8%ae/#respond Sat, 26 Nov 2016 08:10:00 +0000 https://hybridlearning.pk/2016/11/26/%d9%be%d9%88%d8%b1%d9%86-%da%af%d8%b1%d8%a7%d9%81%db%8c-%da%a9%db%8c-%d8%aa%d8%a7%d8%b1%db%8c%d8%ae/ پورن گرافی کی تاریخ پورن گرافی عصر حاضر کا ایک بہت بڑا ناسور ہے ۔ یہ وہ زہر ہے جس کا کوئی تریاق دریافت نہ […]

]]>
پورن گرافی کی تاریخ
پورن گرافی عصر حاضر کا ایک بہت بڑا ناسور ہے ۔ یہ وہ زہر ہے جس کا کوئی تریاق دریافت نہ ہو سکا ۔لوگوں کے رویے اور انداز زندگی اسی کی بدولت جنسی خود غرضی کی بھینٹ چڑھے ۔ہم اکثرسوچتے ہیں آخر یہ کھیل شروع کب ہوا ۔ اسکا تاریخی پس منظر کیا ہے ۔ اس کے وجود کے بنیادی محرکات کیا تھے ۔ آج کی تاریخ میں اس میں کیسی جدتیں لائی جارہی ہیں ۔
قارئین! تاریخ میں سب سے پہلے پورن گرافی بطور ہتھیار سلطان صلاح الدین ایوبی (1137. 1193) کے دور حکومت میں ہوئی ۔ اسے بطور ہتھیار سب سے پہلے صلیبی بادشاہوں نے استعمال کیا ۔ کہانی کچھ یوں ہے صلیبی ہر میدان میں مسلمان نوجوانوں کے ہاتھوں شکست فاش سے سخت پریشان تھے ۔ اسلامی افواج صلیبی جمیت اور متحدہ قوتوں پر بھاری ثابت ہورہی تھیں ۔ صلیبیوں کی سوچ کا دھارا اس وقت بدلا جب ڈیڑھ لاکھ مسلمان فوج نے بحر اوقیانوس کے ساحلوں پر پندرہ لاکھ صلیبی جنگجو لاشوں کا ڈھیر کردیئے ۔ اس موقع پر متحدہ صلیبی فوج کا بادشاہ رونالڈ پھوٹ پھوٹ کر رویا ۔ آخر ایک بڑی میٹنگ کا انعقاد ہوا ۔ اس میٹنگ میں مسلم اور صلیبی افواج کا موازنہ کیا گیا ۔ معلوم ہوا مسلمان رات بھر سجدوں میں روتے ہیں۔ اور دن بھر میدانوں کی للکار ہوتے ہیں ان کے اندر ایک دنیا آباد ہے جسے وہ ایمان کہتے ہیں ۔ یہی ایمان انھیں دنیا کے ہر خوف و ڈر اور لزت پرستی سے بہت اوپر، انھیں بہترین جنگجو بنائے رکھتا ہے۔جبکہ صلیبی فوجی رات بھر زنا کی محفلوں اور دنیا کی رنگ رلیوں میں مشغول رہتے ہیں۔ لہذا دنیا چھوڑ کر ایک نئے جہاں کاخوف انھیں شکست فاش سے دو چار کرتا ہے ۔ اس کے علاوہ دوران جنگ مسلمان فوجیوں کی آنکھوں سے جو وحشت ٹپکتی ہے ۔ وہ صلیبی قوتوں پر خوف طاری کر دیتی تھی ۔ اسکے ساتھ نعرہ تکبیر کی فلک شگاف صدائیں اور مسلمانوں کا اپنی اپنی جگہ پر فولاد بن جانا بھی صلیبیوں کیلئے ایک مسئلہ بن گیا تھا ۔
صلیبیوں کی اس تاریخی میٹنگ میں ہرمن نامی انٹیلی جنس آفیسر بھی موجود تھا ۔یہ وہ شخص ہے جس نے صلیبی تاریخ میں مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان پہچایا ۔ یہ نہایت شاطر اور ذہین و فطین شخص تھا ۔اس نے مسلمان اور صلیبی نوجوان کی نفسیات پر بات کرتے واضح کیا ۔ میری ساٹھ سالہ زندگی کا تجربہ ہے کہ ایک عیاشی پسند وجود کبھی بھی زندگی کے میدان میں بہترین سپاہی نہیں بن سکتا ۔ خصوصا وہ لوگ جو سیکس کے معاملات میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں ۔ انکی جسمانی و روحانی طاقتیں ختم ہو کر رہ جاتی ہیں اگر میں مسلم فوج کی بات کروں تو مسلمان فو ج میں ایسے نوجوانوں کی اکثریت ہے جو سیکس کی لزت سے یکسر نا آشنا ہیں ۔ان میں سے جو شادی شدہ بھی ہیں وہ بھی اس چیز کو ایک حد تک آزما پاتے ہیں ۔ تصور کی رعنائیاں اور خوبصور ت نظارے ہمیشہ ان کی پہنچ سے دور رہے ہیں ۔ انھیں مذہب سے آگے اور پیچھے کچھ نہیں دکھائی دیتا ۔ لہذا ہم اگر ان میں جنسی بھوک کو پیدا کر دیں تو ان کی سوچ اور نظریات کو کمزور کیا جا سکتا ہے۔ اس مشن کی کامیابی کی ایک مثال وہ مسلمان بادشاہ اور وزرا بھی ہیں جوشروع میں سطان ایوبی کے ساتھ تھے لیکن ہماری خوبصور ت لڑکیوں نے جب سے انھیں اپنی حسین اداؤں کا اسیر کیا تب سے وہ خدا اور رسول کو جانتے ہی نہیں ہیں انھیں سلطان ایوبی اپنا سب سے بڑا دشمن نظر آتا ہے ۔ ان مسلمان وظیفہ خوروں میں سے وہ جرنیل بھی شامل ہیں جن کی حکمت عملیاں اور بہادریاں میدانوں کے نقشے بدل ڈالا کرتی تھیں ۔ آج وہ صلیبیوں سے نگاہیں جھکا کر بات کرتے ہیں ۔ کیونکہ ہم انکے اندر عورت اور جنسیات کی روح داخل کرچکے ہیں ۔ اگر یہی حربہ پوری مسلمان فوج پر آزمایا جائے تو یقیناًہم کامیاب ہونگے ۔ کیونکہ مسلمان نوجوان کیلئے یہ ایک بالکل نئی چیز ہوگی ۔ وہ اس کیلئے جنونی ہوسکتے ہیں
ہرمن کے اس خیال پر رونالڈ نے نقطہ اٹھایا ۔ اس نے کہا ، ہم متعدد بار نہایت خوبصورت لڑکیا ں مسلمان فوج میں داخل کر چکے ہیں ۔ اس کام میں ہمیں شدید تخریب کاری کرنا بھی پڑی تھی ۔ لیکن مسلمان فوج ان حسین لڑکیوں کی طرف دیکھنے کا تکلف ہی نہیں کرتی ہے ۔اور متعدد لڑکیا ں مسلمان فوج کا کردار دیکھ صلیبی حمایت چھوڑ چکی ہیں ۔ لہذا تمھارا یہ منصوبہ ناکام ہے ۔
ہرمن نے فوری جواز پیش کرتے ہوئے کہا تھا ۔ حضورجب تک آپ کے اندر کسی چیز کا تصور موجود نہ ہو اسکا ہونا نہ ہونا بے معنی ہوتا ہے ۔ ہمیں مسلم فوج میں جنسی دنیا کا تصور پیدا کرنا ہے ۔ایسا تصورجو ان کی سوچ کی راہداریوں میں برہنہ عورتوں کو حسین اداؤں کے ساتھ گردش کرتا دکھائے ۔ اسکے بعد وہ خود ہماری ثقافت کے حوالے کر دیں گے کیونکہ یہ ہماری ایجاد ہوگی ۔یہی واحد طریقہ ہے جس سے ہم مسلمان کو شکست دے سکتے ہیں۔
رونالڈ ہرمن کی کی اس بات پر بہت زیادہ سنجیدہ ہوگیا اور اور سر گوشی بھرے لہجے میں بولا آخر تم کہنا کیا چاہتے ہو۔ ہرمن نے نہایت شاطرانہ انداز میں تاریخ کاسب سے بھیانک منصوبہ رونالڈ کے سامنے پیش کر دیا ۔ دنیا کے سامنے یہ منصوبہ آرٹ پورن گرافی کے نام سے سامنے آیا۔اس منصوبے کے ایک سال بعد سلطان صلاح الدین ایوبی کو اطلاح ملی کہ فوج کے کچھ نوجوان رات کوغائب پائے جاتے ہیں۔ نوجوانوں میں اکثر جنسی گفتگو بھی سنی گئی ہے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس چیز کو اتنا سنجیدگی سے لیا کہ خود بھیس بدل کر ان نوجوانوں کا پیچھا کیا ۔ یہاں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ سلطان ایوبی بذات خود بھیس اور آواز بدلنے کے ماہر تھے۔ تاریخ میں متعد د بار ان کی ایک دوسری شخصیت کے روپ میں دشمن کے ساتھ ملاقات کی روایات موجود ہیں ۔ یہاں تک کہ ایک جنگ میں شکست کے بعد صلیبی اعلی افسران کو سلطان کے سامنے پیش کیا گیا ۔ سلطان نے ایک افسر سے پوچھا ’’رات جس شخص سے تم نے کہا تھا میں ایوبی کو اسکی سانس کی مہک سے پہچان سکتا ہوں بتاؤ وہ کون تھا ،، وہ صلیبی افسر بولا حضور وہ ایک عربی تاجر تھا جس کی غلط بیانی نے ہمیں آپ کے سامنے لا کھڑا کیا ۔ سلطان ایوبی نے مسکراتے ہوئے کہا ،، وہ میں خود تھا ۔ وہ حیرت زدہ سلطان صلاح الدین ایوبی کو تکتا رہ گیا۔
دوستوں فوج کے کچھ نوجوانوں کی پرسرار حرکتوں پر سلطان ایوبی خود انکے پیچھے گئے ۔ تو معلوم ہوا فوجی قیام گاہ سے کچھ فاصلے پر ایک قافلہ رکا ہے ۔ جو بظاہر مسلمان ہیں لیکن ان کے پاس فحش تصاویرکے کچھ نمونے موجود ہیں ۔ جب سلطان نے وہ تصاویر دیکھیں تو دنگ رہ گئے ۔ ان میں ایسی منظر کشی کی گئی تھی کہ کوئی بھی نوجوان سیکس کیلئے جنونی ہوسکتا تھا ۔اسی دوران سلطان ن صلاح الدین ایوبی کو دمشق اور مصر کے دیگر شہروں سے اطلاعات ملیں کہ شہر میں فحش تصاویر کے قبہ خانے کھل گئے ہیں ۔ جہاں جنسی اشتعال انگیز تصاویر دکھائی جاتی ہیں ۔ نوجوانوں کو جنسیات کی باقاعدہ تعلیم دی جاتی ہے ۔ ساتھ یہ بھی لکھاتھا کہ مسلمان نوجوان بڑی تیزی سے برائی کی طرف مائل ہورہے ہیں۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے فوری اپنی جنگی پیش قدمی روکی ۔ اور پورن گرافی کے اس ناسور کے خلاف محاظ کھولا ۔ اس حوالے سطان صلاح الدین ایوبی نے ایک تاریخی تقریر میں کہا تھا ۔ ہر قوم کی طاقت اسکا اچھا یا برا کردار ہوا کرتا ہے د شمن ہماری اصل طاقت کا اندازہ لگا چکا ہے۔ اب وہ سامنے کی جنگ کبھی نہیں کرے گا ۔ اسی لیے دشمن اب ہمارے قومی کردار پر حملہ آور ہوا ہے۔ کیونکہ ضروری نہیں جنگ میدانوں میں ہو ۔ جنگ سوچ اور رویوں کی بھی ہوتی ہے۔ جو قوم اس پر غالب آجاتی ہے وہ فتح یاب ہوتی ہے
خواتین و حضرات ! صلیبی انٹیلی جنس آفیسر ہرمن ایک نہایت ذہین اور شاطر انسان تھا ۔اگر آپ پوری صلیبی تاریخ کا مطالعہ کریں تو آپ کو یہ شخص پوری تاریخ میں چھایا ہوا نظر آئے گا ۔ صلیبی جب ہمت ہار چکے تھے ۔تو اس شخص نے ان میں جان ڈال دی ۔ اسی کے منصوبے پر عمل کرتے ہوئے دنیا کے مشہور مصور اور منظر نگار وں کو منہ مانگی قیمت پر خریدا گیا ۔ ان سے ایسی فحش تصویر کشی کروائی گئی کہ دیکھ کر نظریں ہٹانا مشکل ہوجاتا تھا۔ وہ سیکس جس پر لوگ ایک حد تک توجہ دیتے تھے پھر اسے بے حد سوچنے لگے ۔ صلیبی بادشاہوں نے جب اپنے اس منصوبے کو سو فیصد کامیاب ہوتے دیکھا ۔ تو اپنی کتابوں میں اس کا تذکرہ بڑی شان سے کیا ۔اگرچہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس زہر کو مارنے کی پوری کوشش کی ۔ لیکن اس مسئلے کا پوری طرح ادراک نہ ہوسکا ۔ کیونکہ اس زہر کے اثر کو دیکھتے ہوئے حسن بن سباح کے فرقے نے اسے بطور ہتھیار اپنایا ۔ صلیبیوں سے اس آرٹ گرافی کی نئی جدتوں پر مانگ کی ۔ یوں حسن بن سباح کی پہاڑوں میں بنائی ہوئی پرسرار جنت میں ایک اور ہتھیار کا اضافہ ہوا ۔اسی دوران سلطان بیت المقد س کی فتح کے بعد چل بسے ۔ صلیبی اپنا دم خم کھو چکے تھے۔ لیکن انکا تیار کردہ زہر پورن گرافی مسلسل فحاشی کے جراثیم پھیلاتا رہا ۔ یوں صدیاں بیت گئیں ۔ زمانے کے رنگ ڈھنگ بدل گئے ۔ کئی ثقافتیں آئیں اور مٹ گئیں۔
آخر اٹھارویں صدی کا سورج طلوع ہوا ۔ یہ وہ صدی ہے جب سائنس کے علم میں انقلاب کی فضا پیدا ہونا شروع ہوئی تھی ۔ نئی جدتیں اور نئی منزلیں روشن ہو رہیں تھیں ۔ اٹھارویں صدی کے شروع میں پورن گرافی پر ایک بار پھر نئے انداز میں کام شروع ہوا۔ اس بار پورن گرافی کیلئے لکڑی کا استعمال ہوا ۔ اس کے علاوہ درختوں کو بھی کانٹ چھانٹ کر جنسی عضو کی طرح بنا دیا گیا فرانس میں ہوئے اس تماشے پر لوگوں کا ہجوم لگ گیا ۔ لوگ بے پناہ دلچسپی سے لکڑی کے بنے جنسی سامان اور درختوں پر ہوئی زیادتی یکھنے جوک در جوک آرہے تھے ۔اس وڈ پورن گرافی پر لوگوں میں جنسی آزاد خیالی پیدا ہوئی ۔ لہذا لوگوں کی دلچسپی دیکھتے ہوئے امریکہ فرانس اور لندن میں وڈ پورن گرافی کے چھوٹے چھوٹے پورن ہاوس کھل گئے ۔ جو ایک چھوٹا سا جنگل ہوتا تھا ۔ جس میں پورن گرافی کے فنکارے درختوں پر عیاں ہوتے تھے ۔
دوستوں ! 1839 میں کیمرہ ایجاد ہوا ۔ اس ایجاد نے جہاں سائنس کی دنیا میں ایک بہت بڑا چمتکار کیا وہیں یہ بہت جلد پورن گرافی کا اہم ہتھیار بن گیا ۔ 1855 میں پہلی باراسے پورن گرافی کیلئے استعمال کیا گیا ۔ لیکن اس پورن گرافی میں مسئلہ یہ تھا کہ کیمرہ تصویر کی صرف ایک کاپی بناتا تھا ۔ اس تصویر کو بہت زیادہ شیئر نہیں کیا جاسکتا تھا ۔ اسی لیے پورن گرافی کا جن مشکل کا شکار ہوگیا ۔ لیکن یہ مسئلہ اس وقت مسئلہ نہ رہا جب 1863 میں پرنٹر ایجاد ہوا ۔ اس ایجاد کے ساتھ ہی سیکس تصاویر سے بھر پور پلے کارڈز ، اور جنسی خاکے لوگوں کے ہاتھ میں آچکے تھے ۔1871 میں جنسی تصاویر بلیک اینڈ وائٹ رزلٹ میں پوری شدت کے ساتھ مارکیٹ آچکی تھیں ۔ ان مارکیٹوں میں فرانس کی مارکیٹ سب سے آگے رہی ۔
دوستوں ! 1876 ویڈیوکیمرہ ٹیکنالوجی منظر عام پر آئی۔ اس ٹیکنالوجی میں ویڈیو کیمرہ ایک منٹ میں ساٹھ تصاویر کو کیپچر کرتا تھا ۔ پھر ان تصاویر کو چرخا نما مشین پر ایک بڑے رول بنڈل کی صورت چڑھایا جاتا ۔ پھر اس چرخے کو ہاتھ سے چلایا جاتا ۔ اس سے تصویر اس تیزی سے گھومتی تھی مانو! ایسے لگتا جیسے ویڈیو پلے ہو رہی ہو۔ اسی طریقہ عمل کو آگے چل کر ٹی وی ٹیکنالوجی میں استعمال کیا گیا ۔ آج جو ہم حرکت کرتی اور زندہ محسوس ہوتی HD ویڈیوز دیکھتے ہیں دراصل یہ ہزاروں تصاویر کا مجموعہ ہوتی ہیں ۔ جو اس تیزی اور صفائی سے پلے ہوتی ہیں کہ ہمیں تصویر حرکت کرتی نظر آتی ہے
دوستو! ویڈیو ٹیکنالوجی کے وجود میں آتے ہی یورپی ممالک میں فلم ساز انڈسٹری کا ابتدائی ڈھانچہ بننا شروع ہوا ۔ اس کے ساتھ ہی تاریخ میں پہلی بار باقاعدہ پورن انڈسٹری کا آغاز ہوا ۔ پہلی پورن فلم 1895 میں ریلیز ہوئی ۔اسے لومئیر برادرز انڈسٹری نے پہلی بار عوامی نمائش کیلئے فرانس میں پیش کیا ۔اسکے ڈرائکٹر مسٹر البرٹ کرچنر تھے ۔ پہلی پورن فلم سولہ منٹ کی تھی جس میں ایک عورت کو برہنہ انداز میں ہوش ربا ادائیں دکھاتے ہوئے پیش کیا گیا۔ یہ فلم نہایت منافع بخش ریکارڈ کے ساتھ مقبول ہوئی ۔ اس کے ساتھ ہی سیکس کی خواہش ضرورت سے بڑھ کر جنون میں بدل گئی ۔یورپ کے گلی کوچوں میں لوگ بے ہودہ مذاق اور چھیڑ خوانی کرنے لگے۔ پھر یہی چیز آگے چل کر یورپی ثقافت کا حصہ بن گئی ۔
انیسویں صدی کے آغاز میں کیمرہ ٹیکنالوجی میں مزید بہتری آئی ۔ منظر پہلے سے زیادہ صاف اور معیاری ریکارڈ ہونے لگے۔ اس کے ساتھ ہی فرانس اور دیگر یورپی ممالک نے سرکاری سطح پر پورن تھیٹر کھول دیئے ۔ جہاں پورن اداکاروں کی پیداوار کا سلسلہ شروع ہوا ۔ 1920 تک یورپی تہذیب پورن گرافی کے اس زہر میں ڈوب چکی تھی ۔ عوام سر عام سڑکوں کو بیڈ روم بنائے اپنا شوق پورا کرنے لگی ۔ ساحل سمندر عیاشی کے اڈے بن گئے ۔ میاں بیوی ایک دوسرے کی ذمہ داریوں سے بھاگنے لگے ۔
1970میں پورن گرافی کا زہر برصغیر میں داخل کرنے نے کی کوشش کی گئی ۔ پہلے پہل یہ صرف تصاویر پر مشتمل تھا ۔ اسے ویڈیو دکھانے کیلئے یورپی کمپنیز نے پاکستان و بھارت میں پورن سینما کی اجازت چاہی ۔ اس کے جواب میں صرف انکار ہی نہیں کیا گیا بلکہ پورن گرافی کو باقاعدہ ایک جرم قرار دیا گیا ۔ دوسری طرف یورپی ممالک میں سیکس ویڈیوز کی ڈیمانڈ کم ہونا شروع ہوئی ۔ کیونکہ ایک ہی سین ہر فلم میں دیکھ کر عوام بور ہونے لگی ۔ دوسرا بذات خود انکا معاشرہ اتنا آزاد ہوچکا تھا کہ ویڈیو دیکھنے کی ضرورت روز بروز کم ہونے لگی۔اسی صورتحال سے پریشان ہوکر پورن انڈسٹری نے پورن گرافی کی نئے انداز پر کام کرنے کے بارے میں سوچا ۔ یوں پورن کیٹیگری پراجیکٹ کا آغاز ہوا ۔ اس پورن کیٹیگری پراجیکٹ میں سیکس کو کئی اقسام میں تقسیم کردیا گیا ۔ ہر قسم کا اپنا ایک منفرد انداز ہوتا تھا ۔ اگر آج ہم کسی پورن ویب سائٹ کو اوپن کریں ۔ تو ہمارے سامنے ایک لسٹ اوپن ہوجاتی ہے ۔ جس میں سیکس کی مختلف کیٹگریز نظر آتی ہیں۔ جب کیٹیگری پراجیکٹ یورپی عوام کے سامنے لایا گیا تو دیکھنے والوں کا ازدھام مچ گیا ۔ کیونکہ اس دفعہ فحاشی کے مناظر روایتی طریقوں سے ہٹ کر ریکارڈ کیے گئے تھے ۔
یہ پراجیکٹ پورن انڈسٹری کیلئے آب حیات کی صورت اختیار کر گیا ۔ کیونکہ اسی کی بدولت ہر شخص کی جنسی نفسیات ابھر کر سامنے آئیں ۔ مثلا ایک شخص دھواں دار جنسی مناظر کے بجائے ریلیکس پورن دیکھنا پسند کرتا ہے ۔ تو اس کیلئے الگ کیٹیگر ی موجود ہوگی ۔اور یقیناًپانچ سال بعد بھی وہ ریلیکس پورن دیکھنا ہی پسند کرے گا ۔ یوں ہر شخص کی جنسی خواہش کے مطابق اسے پورن گرافی کا نشہ ملنے لگا ۔
1980 میں وی سی آر ٹیکنالوجی برصغیر میں عام ہوئی ۔ اگرچہ ستر کی دہائی میں کمپیوٹر بھی پاکستان میں اکا دکا جلوہ گر ہوچکے تھے ۔ لیکن عام لوگ اس سے نا آشنا تھے۔لہذا لوگ پردہ سکرین سے ہٹ کر وی سی آر کی طرف متوجہ ہوئے ۔ اسی دوران پاکستان فلم انڈسٹری بھی پوری شان سے ابھر کر سامنے آئی۔ یورپی کمپنیز نے جب ایشیائی لوگوں کا وی سی آر کی طرف رجحان دیکھا تو ان کی آنکھوں لالچ کی چمک پیدا ہوئی۔ یوں فحش فلمیں پاکستان بھارت اور دیگر ایشیائی ممالک میں بلیک ہوکر بکنے لگیں۔
1998 میںیورپی پورن انڈسٹری نامعلوم ہاتھوں میں چلی گئی ۔پہلے یہ صر ف جنسی کاروبار کے طور پر استعمال ہوتی تھی ۔ لیکن پھر اسے پوری دنیا کو جنسی دہشت گردی کیلئے چنا گیا ۔ پورن انڈسٹری میں ایک ایسا جنسی طریقہ متعارف کروایا گیا ۔ جو براہ راست کینسر ، گلوریا اور دیگر تباہ کن بیماریوں کا موجب ہے ۔ اس طریقہ کار کو اورل سیکس کہتے ہیں ۔ آپ نے ایک چیز اکثر نوٹ کی ہوگی ۔ پورن فلم کی چاہے کوئی بھی کیٹیگری ویڈیو دیکھ لیں ۔ فلم کے سٹارٹ میں اورل سیکس کا مظاہرہ ضرور کیا جاتا ہے ۔ ایسے لگتا ہے جیسے یہ بھی ایک باقاعدہ جنسی عمل کا حصہ ہے۔سائنسی میڈیکل رپورٹ کے مطابق ہمارے جسم میں ایک مادہ منی کے ساتھ خارج ہوتا ہے ۔ جو ڈی این اے میں اکثر خرابی کا باعث بنتا ہے ۔ اگر وہ منہ کے ذریعے معدے میں چلا جائے یا دانتوں میں اسکی کوئی باقیات رہ جائیں ۔ تو وہ منہ کے خلیات میں p16 پروٹین نامی مادہ پیدا کر دیتا ہے۔ جو منہ کے کینسر اور بلڈ پرابلمز کو جنم دیتا ہے۔اور یہ وہ بیماریاں ہیں جن کا علاج یہودی لیبارٹریوں کے علاوہ کہیں نہیں ملتا۔ ان بیماریوں کی تمام دوائیاں اسرائیلی کمپنیز سے نہایت مہنگے داموں فروخت کرتی ہیں ۔ ان بیماریوں سے متاثرہ مریضوں کے چہرے بدل جاتے ہیں ۔ اور موت سسک سسک کر آتی ہے ۔ لہذا اورل سیکس کے شوقین شوق پورا کرنے سے پہلے چشم تصور میں اپنا انجام بھی سوچ لیں ۔ اورل سیکس دراصل خفیہ یہودی ایجنسیز کاذریعہ آمدنی ہے ۔ اسی کے ذریعے لوگ ان کا شکار بنتے ہیں اور انھیں لاکھوں ڈالر لٹاتے ہیں۔ اورل سیکس کے ساتھ سکیٹ ایٹنگ اور پس ڈرنکنگ سیکس کی ویڈیوز بھی منظر عام پر آرہی ہیں ۔ جو کہ یہودی ایجنسیز کی سازش کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ان پورن ویڈیوز میں کام کرنے والے اداکاروں کو شوٹنگ کے فوری بعد،ان کے منہ میں مخصوص سپرے کیے جاتے ہیں ۔ جو منہ میں گری غلاظت کے تمام جراثیم ختم کر دیتے ہیں ۔ ہمارے عام علماء کاخیال ہے کہ پورن ویڈیوز صرف مسلمانوں کے خلاف بطور ہتھیار استعمال ہوتی ہیں ۔ حقیقتا ایسا نہیں ہے۔ یہودی ایجنسیز کا ٹارگٹ پوری دنیا کے مذاہب ہیں ۔ کیونکہ تمام مذاہب ان کے انتہا پسند نظریات کو ہر صورت رد کرتے ہیں ۔ یہودی نہایت مہارت سے شاطرانہ چال چلتے ہوئے ایک ایسے منصوبے پر کام کر رہے ہیں ۔ جنھیں ون ورلڈ آرڈر کہتے ہیں ۔ یعنی ایک ایسی دنیا جہاں کسی خدا کا تصور نہ ہو۔ جہاں کوئی تہذیب نہ ہو ، جہاں کوئی قانون نہ ہو ۔ بس ایک ہی اصول ہو اور وہ ہے یہودی غلامی ۔ اس مشن کی تفصیلات بہت چشم کشا اور دل آویز ہیں ۔ بس اتنا کہوں گا کہ پوری دنیا پر یہودی راج کیلئے ہر وہ ہتھکنڈہ آزمایا جا رہا ہے جو آج کی تاریخ میں ممکن ہے ۔ لوگوں کو ہر طرف سے جنسی ،نفسیاتی ، سیاسی ، سماجی اور مذہبی غرض ہر طرف سے پھنسایا جارہا ہے۔ اور ہم لوگ بے خبر پھنس رہے ہیں ۔یہودی ایجنسیز کے خفیہ ہتھکنڈوں پر حقیقت کا چاقو چلانے کیلئے یوٹیوب پر الماس یعقوب نام سے ایک چینل موجود ہے۔ اسکا مطالعہ ضرور کیجئے اور اسے سبسکرائب کیجئے ۔ اس کے ساتھ اس بھائی کا شکریہ بھی ادا کیجئے ۔ جو نہایت محنت سے یہودی ہتھکنڈوں سے پردہ اٹھا رہے ہیں۔
دوستو! بیسویں صدی کا سورج طلوع ہوا ۔ ایشیا میں ابھی دھندلے معیار کی ویڈیوٹیکنالوجی کا دور ختم نہیں ہوا تھا ۔ جبکہ یورپی ممالک میں HD ٹیکنالوجی منظر عام پر آچکی تھی ۔ ہالی وڈ فلم انڈسٹری بے مثال فلمیں پروڈیوس کر رہی تھی ۔ اس کے علاوہ یورپی ممالک انٹرنیٹ کی ٹیکنالوجی سے بھی بھر پور فائدہ اٹھا رہے تھے ۔ جبکہ پاکستان میں پہلی بار انٹرنیٹ سروس 1992 میں آئی ۔ اسے ایک یورپی کمپنی برین نیٹ نے پاکستان میں پرائیویٹ طور پر لانچ کیا تھا ۔ اس کے پہلے انجینئر منیر احمد خان تھے ۔ جنھوں نے پاکستا ن میں انٹرنیٹ سرور کو کنٹرو ل کیا ۔ اسکی ابتدائی سپیڈ 128k تھی ۔ 1995 میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن لمیٹڈ یعنی پی ٹی سی ایل نے انٹرنیٹ آل پاکستان کیلئے خرید لیا ۔ سن 2000 میں انٹرنیٹ پاکستانی عوام میں مقبول ہونا شروع ہوا ۔ اس کے ساتھ ہی پورن گرافی کا زہر بھی سرحدیں پھلانگتا ہو ا داخل ہوا ۔یورپی ممالک میں پہلے پہل پورن گرافی سینما میں دکھا کر یا جنسی تصویروں کے ذریعے پیسہ کمایا جاتا تھا ۔ لیکن انٹر نیٹ نے یہ جھنجھٹ ختم کردیا ۔ انٹر نیٹ نے باقاعدہ خود آن لائن مارکیٹنگ پروسیس کھول کر پورن گرافی کو بطور پراڈکٹ پیش کیا ۔ جسے عوامی طور پر اتنی پزیرائی ملی کہ سب ریکارڈ ٹوٹ گئے ۔ یورپی پورن انڈسٹریز کو سب سے زیادہ آن لائن ٹریفک ایشیا سے ملی ۔ 2015 کی گوگل رپورٹ کے مطابق روزانہ نوے لاکھ پاکستانی پورن ویب سائٹس کا وزٹ کرتے ہیں ۔ جبکہ بھارت سے روزانہ چھ کروڑ لوگ فحش ویب سائٹس کا وزٹ کرتے ہیں۔جس سے پورن انڈسٹری روزانہ کروڑوں ڈالر کا منافع کماتی ہے۔ یہ وہ تعداد ہے جو ویب سائٹس بلاک ہونے کے باوجود کسی نہ کسی طرح مطلوبہ سائٹس تک پہنچ ہی جاتی ہے ۔ جبکہ گوگل پر پورن تصاویر دیکھنے والوں کی تعداد پاک و بھارت میں کروڑوں میں ہے
دوستو! کہتے ہیں ہر چیز کی ایک انتہا ہوتی ہے ۔ لہذا دو صدیوں سے پورن گرافی دیکھنے والی عوام اکتا گئی ۔ کیونکہ پورن فلم میں کام کرنے والے اداکار اور اداکارائیں نہایت خوبصورت ہوتی ہیں ۔ اور ان کی جنسی پاور بھی زبردست ہوتی ہے۔ لیکن جب لوگ اس فعل کو حقیقت بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ تو زیادہ تر انھیں اپنے پرانے ساتھی پر گزارا کرنا پڑتا ہے ۔ جو کہ عرصہ پہلے اپنی جنسی کشش کھو چکا ہوتا ہے۔ نفسیات کے اس دھارے نے پورن انڈسٹری مالکان کو ایک بار پھر سوچ کے کٹہرے میں کھڑا کردیا ۔ یوں 2014 میں ایک منفرد ٹیکنالوجی وجود میںآئی۔ اس ٹیکنالوجی کو سلیکون سیکس گرل کہتے ہیں ۔ اس ٹیکنالوجی میں سلیکون دھات سے ایک نہایت خوبصور ت لڑکی کا وجود تراشا جاتا ہے۔ پھر اسے اس قدر حقیقی بنایا جاتا ہے کہ اصل وجود اور اس مجسمے میں کوئی فرق نظر نہیں آتا ۔ایسے لگتا ہے جیسے یہ ابھی بول پڑے گی ۔ اس کا جسم اتنا نرم و نازک بنایا جاتا ہے کہ زندہ وجود کی نزاکت کو رد کرتا ہے ۔ ان کی خوبصورتی ، جسم کی نرمی ، اور بناوٹ کا انداز ایسا ہے کہ بس جان ڈالنے کمی رہ گئی ہے ۔ انھیں دیکھ کر آنکھیں با بار دھوکہ کھاتی ہیں ۔ ان سلیکون گرلز کو جنسی خواہش کیلئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ ان کے مخصوص اعضا میں ایسے مصالحے استعمال کیے گئے ہیں کہ فحاشی کا سکون تین گنا بڑھ جاتا ہے ۔اسی طرح خواتین کیلئے سلیکون بوائز کے نہایت خوبصور مجسمے بنائے گئے ۔ ان مجسموں کی ایک اہم خاصیت یہ بھی ہے کہ آ پ انکی جسمانی لچک کو کسی بھی زاویے کیلئے استعمال کر سکتے ہیں۔لیکن یاد رکھیے ! ان سلیکون جنسی مجسموں میں کچھ ایسے راز بھی چپکے ہیں جو آپکو دائمی جنسی مریض بنا سکتے ہیں ۔ کیونکہ تمام سیکس میڈیسن بھی انھیں مجسموں کے خالق بنا رہے ہیں ۔ ایک طرح سے یہ لوگ بیماری لگانے کے بھی پیسے لیتے ہیں۔علاج کے نام پر مستقل گاہک بنا کربھی لوٹتے ہیں۔2015 میں سلیکون مجسموں کو یورپی مارکیٹ میں لانچ کیا گیا ۔ جیسے ہی یہ مجسمے مارکیٹ میں آئے تو خریداروں کے ہجوم لگ گئے ۔ انھیں مجسموں کی بدولت مردو عورت کا آپسی جنسی تعلق بھی کمزور ہوگیا ۔ جس سے شرح پیدائش میں واضح کمی واقع ہوئی ۔ اسی کے ساتھ ورچول رئیلٹی ڈیوائس نے رہی سہی کسر پوری کردی ۔
یورپی ممالک میں شرح پیدائش تو اٹھارویں صدی سے ہی کمزور پڑ گئی تھی ۔ لیکن 2010کے بعد یہ کمی شدید تر ہوگئی ۔ البتہ مسلم کمیونٹی برابر شرح پیدائش پر برقرار رہی ۔ اسی صورتحال سے گھبرا کر بعض ممالک میں چلڈرن ہاؤس قائم کردئیے گئے ہیں ۔ جہاں عورت و مرد کو بھاری رقم دے کر بچہ پیدا کیا جاتا ہے ۔ بچے کی تمام افزائش چلڈرن ہاؤس کے ذمہ ہوتی ہے ۔ ہالینڈ میں بچہ پیدا کرنے والی عورت کو دس ہزار ڈالر دیئے جاتے ہیں ۔ جبکہ عورتوں نے انکار کیا تو رقم انکی مرضی پر متعین کی گئی ۔ہمارے علماء حضرات چاہے جو بھی خیال رکھتے ہوں ۔ لیکن یہ سچ ہے پورن گرافی کا زیادہ نقصان خود انھیں کا ہوا جن کی ایجاد تھی۔ آ ج اگرچہ مسلمان بھی اسکا شکار ہیں ۔ لیکن پھر بھی ہم اپنے مذہب ،ثقافت اور نسل کو لیے برابر چل رہے ہیں ۔ جبکہ مغربی معاشرہ اس قدر ٹوٹ چکا ہے کہ آرٹیفشل بچے پیدا کرنے پر غور کیا جا رہا ہے ۔ ۔2013 میں امریکی پارلیمنٹ میں اس بات کا اعتراف کیا گیا تھا کہ 2050 تک اسلام کی ا فرادی پاور پورے یورپ پر حاوی ہوجائے گی ۔ لہذا اسلام کو ہر طرف سے گھیر کر محدود کیا جائے ۔ لوگوں کے دلوں میں اسلام کیلئے نفرت پیدا کر کے انھیں اپنے آزاد معاشرے کا حصہ بنا یا جائے ۔ یہی وجہ ہے آج پوری دنیا میں اسلامی شدت پسندی دکھائی جا رہی ہے ۔ سوشل میڈیا پر ملحد اسلام کو نوچ رہے ہیں ۔ سیاست میں بڑے بڑے لبرل داخل کیے جا رہے ہیں ۔ مقبوضہ علاقوں مسلمانوں کا قتل عام کروایا جارہا ہے ۔ کیونکہ دشمن جان چکا ہے کہ اسکا ہتھیار خود اسکی قوم کو ختم کرچکا ہے لیکن جاتے جاتے مسلمان پر آخری وار ضرور کرتے جاؤ۔

]]>
https://hybridlearning.pk/2016/11/26/%d9%be%d9%88%d8%b1%d9%86-%da%af%d8%b1%d8%a7%d9%81%db%8c-%da%a9%db%8c-%d8%aa%d8%a7%d8%b1%db%8c%d8%ae/feed/ 0